ایشیا کپ کی شکست سے مایوس نہیں بلکہ سیکھنے کی ضرورت ہے!
پاکستان کے لیے ایشیا کپ ٹورنامنٹ ختم ہوگیا اور پاکستانی شائقین کے لیے اس کا نتیجہ کسی صدمے سے کم نہیں، حالانکہ ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے کوہلی کی غیر موجودگی کا سن کر شائقین سمجھ رہے تھے کہ پاکستان کو آسان موقع میسر آگیا ہے۔
ٹیموں کا باہمی تقابل کیا جائے تو ایسا سمجھنے میں کچھ غلط بھی نہیں تھا کیونکہ ماہرین بھی پاکستان کو ایک مضبوط ٹیم قرار دے رہے تھے۔ ٹیم تھی بھی مکمل، کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ایک اسپنر کم تھا تاہم یہ الگ بحث ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ معمولی کمی بیشی کے ساتھ ایک بہترین ٹیم کا انتخاب کیا گیا تھا۔ کوچ اور سلیکٹرز کی نظر میں بھی شاید یہ ایونٹ ورلڈ کپ کی تیاری کا آغاز تھا۔
بھارت نے ہمارا کیا بگاڑا؟
پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ انڈیا کے خلاف پہلا میچ ہم نے کچھ زیادہ ہی ایزی لے لیا اور کھلاڑی اوورکانفیڈنس کا شکار ہوگئے۔ امام الحق جیسا معقول بلے باز اپنا رول بھول کر کریز سے نکلا اور ایک غیر ضروری وکٹ مخالفین کو تھما دی۔ انڈین ٹیم کی ہانگ کانگ کے خلاف اوسط درجے کی باؤلنگ نے بھی پاکستانیوں کو نسبتاً غیر سنجیدہ رویہ اپنانے کی طرف مائل کیا۔ امام کا وہ آؤٹ ہونا جیسے ایک پینک بٹن تھا۔ فخر نے بھی پریشر لیا اور وہی غلطی کر بیٹھے۔ اس میچ میں سوائے بابر کے سب ہی غیر ضروری شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے۔
پڑھیے: گرین شرٹس ایشیا کپ سے باہر، ایونٹ میں ٹیم کی کارکردگی کا ایک جائزہ
پہلے پاک بھارت میچ میں پاکستان ٹیم یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ آخری گیند تک لڑنا ہر حال میں اہم ہوتا ہے۔ روایتی حریفوں کے درمیان کوئی میچ غیر اہم نہیں ہوتا، ہر میچ کی شکست اور فتح اپنے ساتھ دور رس نتائج لاتی ہے۔
ہم یہ سمجھے کہ خیر ہے اگلے راؤنڈ میں دیکھ لیں گے۔ تاہم کھلاڑیوں پر ایک نفسیاتی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ دماغ کے کسی کونے میں یہ نکتہ بیٹھ چکا تھا کہ ہم ایک کمزور انڈین ٹیم کو بھی نہیں ہرا سکے اور اس سوچ نے ہمارا سارا اعتماد توڑ کر رکھ دیا۔
افغانستان نے بھی خوب مزہ چکھایا
افغان ٹیم اس بار مختلف موڈ میں تھی۔ یاد پڑتا ہے کہ 2010ء یا 2011ء میں پاکستانی نیشنل ٹی 20 کپ میں افغانستان بطور ڈومیسٹک ٹیم شامل تھی اور مسلسل شکستوں کے سب پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہوگئی تھی۔ لیکن ہمت ہارنے کے بجائے اس ٹیم نے محںت کی اور آج اسی ٹیم کے کئی کھلاڑی دنیا کو ٹکر دے رہے ہیں۔
بنگلہ دیش یا انڈیا جو بھی ٹرافی اٹھائے سچ تو یہ ہے کہ افغان ٹیم ہی اس ٹورنامنٹ کی اصلی فاتح ہے۔ جس طرح تسلسل سے عمدہ کارکردگی انہوں نے دکھائی ہے کوئی دوسری ٹیم اس کے قریب بھی نہیں بھٹک سکی۔
اگر افغانستان کے خلاف میچ کی بات کی جائے تو حالات کا اندازہ اسی میچ میں ہوگیا تھا۔ پاکستان کی باؤلنگ بیٹنگ میں اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے تاہم کافی عرصے سے جو فیلڈنگ بہتر ہوئی تھی اسے بھی اسٹیو رکسن کے جاتے ہی ریورس گئیر لگ گیا۔
افغان ٹیم کے خلاف اتنے آسان کیچز چھوڑے گئے کہ کلب لیول کے فیلڈرز بھی شاید دبوچ لیں۔ افغانستان کے خلاف ایک باؤلر کم کرکے مینیجمنٹ نے حادثے کو دعوت دے دی تھی، شکر ہے شعیب ملک کی عمدہ پرفارمنس کام آگئی۔ تاہم پریشانی بڑھ چکی تھی۔ افغانستان نے اس نفسیاتی گھاؤ کو مزید کُرید دیا۔
بھارت کے خلاف دوسری شکست
انڈیا دوبارہ سامنے آیا تو معاملہ بالکل ہی الٹ ہوگیا۔ سابقہ دونوں میچز نے جیسے ہمارا سارا اعتماد توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس بار ہم اعتماد سے یکسر محروم میدان میں اترے۔
ہم دراصل اوور کمپینسیشن یا اوور کریکشن نامی سینڈروم کا شکار ہوگئے۔ انڈیا کے سوالوں کا یہ درست جواب نہیں تھا۔ شعیب ملک واحد بلے باز تھے جنہوں نے معاملات کو نارمل لیا، وہ بلاشبہ بہترین کھیلے۔ تاہم آخری اوورز میں ہم اسپارک سے محروم تھے۔
انڈیا کے خلاف ایک تلخ حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ جنہیں ہم آل راؤنڈر سمجھتے ہیں وہ بوقت ضرورت مناسب بلے بازی تو کرسکتے ہیں تاہم ایک آل راؤنڈر سے جو فنشنگ ٹچز درکار ہوتے ہیں، وہ سیکھنے میں انہیں ابھی کافی وقت لگے گا۔ ٹورنامنٹ کے شروع میں ایک دم مکمل نظر آنے والی ٹیم میں ایک سے زیادہ کمیاں سامنے آگئیں۔ اب یوں لگ رہا ہے جیسے بہت ساری جگہیں خالی ہیں اور ہمارے پاس ان کا بہترین متبادل نہیں ہے۔
پڑھیے: ایشیا کپ: پاکستان کو بنگلہ دیش سے بھی شکست، فائنل سے باہر
آصف علی جنہیں ہم عمر اکمل کی جگہ دے رہے ہیں اگر انصاف پسندی سے کام لیا جائے تو انہیں اسپیشلسٹ بیٹسمین کہنا کسی بھی بلے باز کے ساتھ زیادتی ہے۔ جس طرح کے شاٹس کھیل کر وہ آؤٹ ہوجاتے ہیں ایسا کوئی باؤلر کرے تو سمجھ بھی آتا ہے مگر ایک اسپیشلسٹ بلے باز کو میچ سچوایشن کے مطابق کھیلنا چاہیے۔ ہر بار یہ نہیں کہا جاسکتا ’یار یہ کون سا طریقہ ہے آؤٹ ہونے کا‘۔
ٹیم مینجمنٹ، ایزی ایزی!
پاکستان ٹیم مینجمنٹ کو ردِعمل کے فیصلوں سے پرہیز کرنا ہوگا۔ کھیل کے حوالے سے ایک سے زیادہ بار سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کریں۔ یہاں میڈیا پر تنقید ہوتی ہے اور ٹیم مینیجمنٹ اپنا فیصلہ بدل لیتی ہے۔ کوچ کو پسند ناپسند کے بجائے میرٹ پر فیصلہ کرنا چاہیے۔ مثلاً جب عامر چاہتے ہیں کہ وہ ٹیسٹ نا کھیلیں تو کوچ کو انہیں آرام دینا چاہیے۔ وہ محدود اوورز کے میچز کھیلیں اس طرح ان کے کھیل کا معیار بھی برقرار رہے گا۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ماضی میں کسی ٹیم کے خلاف اچھی کارکردگی آئندہ بھی اچھے کھیل کی قطعاً ضمانت نہیں ہے۔ کم از کم عامر کی انڈیا کے خلاف حالیہ پرفارمنس اس کا ثبوت ضرور ہے۔ ٹاپ آرڈر میں سے اگر فخر زمان فیل ہوجائیں تو ہمارا پورا بیٹنگ آرڈر ون ڈائمینشل ہوجاتا ہے۔ شعیب ملک کسی حد تک بڑے شاٹس لگا سکتے ہیں، باقی سب ایک جیسے سنگل ڈبل کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ اسی وجہ سے حارث سہیل کی بھی ٹیم میں جگہ نہیں بن پا رہی حالانکہ وہ مستند ترین بلے باز ہیں تاہم نمبر 6 پر کھلانا انہیں ضائع کرنے جیسا ہے۔ خود کپتان نمبر 5 سے اوپر بلے بازی نہیں کرسکتے۔ چیمپیئنز ٹرافی کے بعد سے مسلسل ناکام بلے بازی نے ان کی ٹیم میں شمولیت پر ہی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سرفراز سرخرو ہوگا
جب ورلڈ کپ عین سر پر پہنچ چکا تو بدقسمتی سے اس بار بھی ہم ماضی کی طرح تیاری کرنے کے بجائے اپنی صفیں درست کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور سپہ سالار ہی سب سے زیادہ مطعون ہوچکا ہے۔ سرفراز کا کھیل بُرا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن اس کی وجہ ان کا مسلسل کھیلنا بھی ہے۔
گزشتہ 2 برسوں میں وہ زیادہ میچز کھیلنے والے دنیا کے 4 سے 5 کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ ان پر کام کا دباؤ کم کرنا ہوگا، فارم میں واپسی سے وہ ناقدین کو بہتر جواب دے سکیں گے اور یہی موثر جواب ہوتا ہے۔
کپتانی پر سیاست مردہ آباد
میڈیا میں سرفراز کے کچھ ہمدرد اسے لاہور کراچی جنگ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان کرکٹ کے لیے انتہائی مہلک چیز ثابت ہوگی۔ شعیب ملک خود 2007ء میں اسی قسم کی سیاسی جنگ کا شکار رہ چکے ہیں جب ان کی کپتانی کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں۔ آج وہ سرفراز کے بعد کپتانی کے سب سے مضبوط امیدوار قرار دیے جا رہے ہیں۔ اب وہ خود کیا سوچتے ہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ماضی میں شعیب ملک کپتانی سے توبہ کا اعلان کرچکے ہیں، لہٰذا وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام تر سازشوں کے خلاف انہیں خود کپتان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تاکہ اگر کچھ سیاست ہو رہی ہے تو اسے یہیں ختم کیا جا سکے۔ 2011ء میں شاہد آفریدی اور مصباح الحق کے حامی بھی عین ورلڈ کپ سے قبل یہی کچھ کر رہے تھے۔
نوجوانوں کو ان کا کردار بتانا ہوگا
فہیم اشرف کے ساتھ عامر یامین کو بھی رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے مگر انہیں آرام کرنے دیا جاتا ہے۔ یہ آسودگی ہمارے کلچر میں فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ یقین نہیں تو فہیم کی کارکردگی اور ان کے آؤٹ ہونے کے طریقہ کار کو دیکھ لیں۔ موجودہ ون ڈے کرکٹ اب 11 کے 11 کھلاڑیوں سے پوری جدوجہد مانگتی ہے۔ خاص کر لیٹ مڈل آرڈر کا اچھا کھیل میچ بنانے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں سے ٹیم یا تو حاوی ہوجاتی ہے یا مومینٹم شفٹ ہوجاتا ہے۔
انڈیا کے خلاف آصف کے ایک غلط شاٹ نے پاکستانی اننگز کا سارا مومینٹم توڑ دیا بعد میں لیٹ مڈل آرڈر یعنی نواز اور شاداب نے میچ انڈیا کے ہاتھ میں دے دیا۔ سو اتنا اہم مرحلہ آصف جیسے غیر سنجیدہ کھلاڑی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ حفیظ کو منانا چاہیے کہ وہ نمبر 6 پر بلے بازی کریں۔ ٹیم کا بیلنس کمال ہوجائے گا۔ اگرچہ ایکشن کی تبدیلی کے بعد ان کی افادیت اہم سوال ضرور ہے لیکن اس کے باوجود بھی ایک اضافی آف اسپنر بہرحال ہمیں مل جائے گا۔
کوچ کی ناراضگی کا حل نکالنا ضروری ہے
جنید خان کیا کرے کہ کوچ کی گڈ بک میں آجائے؟ اور یہ معاملہ محض جنید خان تک محدود تو نہیں ہے، بلکہ سہیل خان، محمد عرفان اور فواد عالم بھی کوچ کے بے تکے اعتراضات کی وجہ سے ٹیم سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ احسان مانی خود کھیل کی اچھی سمجھ رکھتے ییں انہیں کوچ سے بات کرنا ہوگی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی سابقہ انتظامیہ نے جو شرمناک سلوک اسٹیو رکسن (Steve Rixon) کے ساتھ روا رکھا جس کے سبب وہ ٹیم چھوڑ کر گئے اس سے بچنا ہوگا۔ انہوں نے ٹیم کی فیلڈنگ بہترین بنا دی تھی، لڑکے ان کے ساتھ ہم آہنگ تھے تاہم گرانٹ بریڈبرن (Grant Bradburn) سے بھی امید ہے کہ وہ جلد معاملات سمجھ جائیں گے۔ اچھی فیلڈنگ کی وجہ سے ہی بنگلہ دیش نے پاکستان کو بے بس کردیا تھا۔ بنگلہ دیش سے شکست تو تکلیف دہ ہے ہی، لیکن اس سے بھی بڑی خفت یہ کہ کل رات ہونے والی شکست بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی مسلسل چوتھی شکست ہے۔
بنگلہ دیش کے خلاف شکست کیوں ہوئی؟
جب محض 12 رنز پر 3 بنگلہ دیشی بلے باز آؤٹ ہوئے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اس میچ کا نتیجہ بنگلہ دیش کے حق میں بھی آسکتا ہے، لیکن اس موقع پر غلط فیصلوں کے سبب یہ ممکن ہوگیا۔
جب مخالف ٹیم پر دباؤ بن چکا تھا، اور جن گیند بازوں کے سبب بنا تھا، ان کو آخر کے لیے سنبھال کر رکھنا سمجھ سے باہر تھا۔ اگر جنید خان اور شاہین شنواری کو مزید اوور دیکر ایک آدھ اور وکٹ لے لی جاتی تو مزاحمت کے سارے راستے بند ہوجاتے، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا کہ وکٹیں لینے والے دنوں فاسٹ باؤلرز کو ہٹا کر اسپنرز کو لے آیا گیا اور انہیں پوری طرح سیٹ ہونے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سرفراز کی بیٹنگ میں ناکامی ان کی کپتانی پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ کل جو غلطی ہوئی یہ واحد غلطی نہیں ہے بلکہ مختلف مواقع پر وہ فاش غلطیاں کرتے نظر آئے۔
ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے بھی بلے باز پلان سے خالی نظر آئے، جیسے ہر کوئی اپنے اپنے لیے کھیل رہا ہے، اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تو ہم سب جانتے ہی ہین۔
کیا سب کچھ ختم ہوگیا؟
نہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔ وقتی ناکامی سے بابر اعظم، فخر زمان اور عامر بُرے کھلاڑی نہیں بن گئے۔ یہ واپسی کریں گے اور ماضی میں بھی کرچکے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں شاہین شاہ آفریدی کا شاندار آغاز بہرحال حوصلہ افزا ہے۔ ہمیں ایک اور زبردست فاسٹ باؤلر مل چکا ہے خاص کر آئندہ دورہ افریقہ اور انگلینڈ ورلڈ کپ میں ایک اچھا فاسٹ باؤلر بہت مددگار ثابت ہوگا۔
جنید خان نے بتایا ہے کہ ابھی ان میں دم ہے، ٹیم کو آفر کرنے کے لیے ان کے پاس ابھی بہت کچھ ہے۔ یہ چیز روٹیشن پالیسی کے لیے بہت اہم ہے۔ شعیب ملک نے جس طرح ذمہ داری لی ہے اور ہر مشکل وقت میں ڈٹ کر کھڑے رہے ہیں۔ اس سے بھی نوجوان ٹیم کا بیلنس بنے گا۔ ان جیسے سینئر کا اس نو آموز ٹیم میں اچھا کھیلنا بہت ضروری تھا۔ تجربے کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ شعیب ملک کے ساتھ نئے لڑکے ویسے بھی جلد دوستی کر لیتے ہیں کیونکہ وہ سکھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں