گرین شرٹس ایشیا کپ سے باہر، ایونٹ میں ٹیم کی کارکردگی کا ایک جائزہ
اپنی ناقص باؤلنگ اور اس سے بھی زیادہ خراب بیٹنگ پرفارمنس کی وجہ سے پاکستان ٹیم کو بنگلہ دیش جیسی ٹیم سے بھی ایونٹ کے دوسرے مرحلے کے میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں جاری 14ویں ایشیا کپ کا سفر گرین شرٹس کے لیے تمام ہوگیا۔
ابتدا سے ہی ایونٹ میں پاکستان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان رہا اور ٹیم اپنے حالیہ دو ٹورنامنٹس (زمبابوے میں سہ فریقی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ اور 2017 میں چیمپیئنز ٹرافی) کی کارکردگی کو برقرار نہ رکھ سکی۔
ایشیا کپ سے قبل پاکستان کے کپتان سرفراز احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ٹیم ٹورنامنٹ کے لیے تیار ہے اور اس میں بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔
دوسری جانب پاکستان کی بیٹنگ، باؤلنگ کے شعبے کو دیکھتے ہوئے کرکٹ ماہرین کا خیال تھا کہ اس مرتبہ ایشیا کپ کا ٹائٹل پاکستان کے سر سجے گا، اور گرین شرٹس کو ایونٹ کے لیے فیوریٹ بھی قرار دیا جارہا تھا۔
پاکستان نے ایشیا کپ کے پہلے مرحلے میں ہانگ کانگ جیسی کمزور حریف کو شکست سے دوچار کیا، لیکن اگلے ہی میچ میں بھارت جیسی مضبوط حریف کے ہاتھوں یک طرفہ مقابلے کے بعد شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
اسی طرح دوسرے مرحلے کے پہلے میچ میں کمزور حریف افغانستان سے بمشکل کامیابی حاصل کی لیکن اس سے اگلے ہی میچ میں بھارت نے پھر پاکستان کو تر نوالہ بنا کر شکست سے دوچار کیا۔
مزید پڑھیں: ایشیا کپ: فائنل کیلئے مقابلے میں پاکستان کو شکست
پاکستان کی ایونٹ کے فائنل میں پہنچنے کی تمام امیدیں بنگلہ دیش کے خلاف فتح سے تھی، جو نسبتاً ایک کمزور حریف ہے، لیکن اس نے بھی پاکستان کے اوسان خطا کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی اور فائنل میں بھارت سے مقابلے کے لیے راہ لی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کی بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ میچوں میں مسلسل چوتھی شکست تھی، اس سے قبل پاکستان کو دورہ بنگلہ دیش کے دوران میزبان ٹیم سے 3 ایک روزہ میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یو اے ای میں کھیلے جانے والے ایشیا کپ میں پاکستان کی نہ صرف بیٹنگ لائن ناکام ہوئی بلکہ اس سے بھی زیادہ ناکامی کا سامنا پاکستان کی باؤلنگ لائن کو کرنا پڑا۔
پاکستان کی ٹورنامنٹ میں بیٹنگ پرفارمنس کی بات کی جائے تو امام الحق، شعیب ملک اور بابر اعظم کے علاوہ کوئی بھی کھلاڑی اس فہرست میں ان کے ہم پلہ دکھائی نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھیں: ایشیا کپ: بھارت کی پاکستان کے خلاف مسلسل دوسری فتح
انعام الحق، شعیب ملک اور بابر اعظم نے ٹورنامنٹ میں 5، 5 میچز کھیلے ہیں اور تینوں نے بالترتیب 225، 211 اور 156 رنز اسکور کیے، جبکہ دیگر کھلاڑیوں میں کوئی بھی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکا، اور اسی وجہ کو ٹیم کی شکست قرار دیا جارہا ہے۔
کپتان سرفراز احمد نے 5 میچز میں 4 مرتبہ بیٹنگ کی اور انہوں نے 17 کی اوسط سے صرف 68 رنز اسکور کیے، اس کے علاوہ ڈبل سنچری میکر فخر زمان کا حال ان سے بھی برا رہا اور انہوں نے 5 اننگز میں 11 کی اوسط سے صرف 56 رنز اسکور کیے۔
کھلاڑیوں کے انفرادی اسکور کی بات کی جائے تو یہاں امام الحق نمایاں نظر آتے ہیں جنہوں نے ٹیم میں سب سے زیادہ 83 رنز بنائے جب انہوں نے ٹیم کی کشتی کو بنگلہ دیش کے خلاف منجدھار سے نکالنے کی ناکام کوشش کی۔
بیٹسمین میں دوسرا بڑا انفرادی اسکور بھی امام الحق کا ہے جو 80 ہے اور انہوں نے افغانستان کے خلاف یہ اسکور کرتے ہوئے ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ’زمبابوے اور بھارت سے کھیلنے میں فرق ہے‘
امام الحق کی تیسری نصف سنچری بھی کمزور حریف کے خلاف تھی، اور انہوں نے ہانگ کانگ کے خلاف 50 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیلی تاہم بھارت کے خلاف 2 میچوں میں امام الحق بھی بری طرح ناکام ہوگئے تھے اور انہوں نے ایک میچ میں 10 اور ایک میں صرف 2 رنز اسکور کیے تھے۔
بیٹنگ کے بعد ٹیم کے سب سے بھروسے مند شعبے باؤلنگ نے شائقین کو سب سے زیادہ مایوس کیا اور کوئی بھی کھلاڑی خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔
ایونٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حسن علی کی رہیں، جنہوں نے 5 میچوں میں 5 وکٹیں حاصل کیں، اس کے علاوہ شاہین شاہ آفریدی اور شاداب خان نے بالترتیب 3 اور 4 میچوں میں 4، 4 وکٹیں حاصل کیں۔
تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ ایونٹ میں صرف ایک میچ کھیلنے والے جنید خان نے بھی 4 ہی وکٹیں حاصل کیں اور یہ انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں 19 رنز کے عوض حاصل کیں اور یہی ایشیا کپ میں کسی پاکستانی باؤلر کی بہترین باؤلنگ ہے۔
مزید پڑھیں: شعیب ملک نے سلیم ملک کا ریکارڈ توڑ دیا
عثمان خان شنواری، محمد نواز 3،3 وکٹیں اور فہیم اشرف 2 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے، تاہم ورلڈ کلاس محمد عامر ایونٹ میں 3 میچز کھیلنے کے باوجود اپنا وکٹ کا کھاتہ کھولنے میں ناکام رہے۔
ماہرین کی جانب سے ٹیم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھائے جارہے ہیں، آئندہ سیزن میں پاکستان کے پاس ایک روزہ میچز کی تعداد کم ہے، تاہم پھر بھی ورلڈ کپ سے قبل دوطرفہ سیریز کو ہی آئندہ برس انگلینڈ میں منعقدہ عالمی کپ کی تیاری کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے۔
پاکستان کو متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف 2 ٹیسٹ میچز اور تین ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے ہیں جبکہ اس کے فوری بعد نیوزی لینڈ سے بھی دوطرفہ سیزیر میں نبرد آزما ہونا ہے جہاں دونوں ٹیموں کے درمیان 3 ٹی ٹوئنٹی، 3 ایک روزہ میچز اور 3 ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں۔