• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

کیا رافیل معاہدہ مودی حکومت لے ڈوبے گا؟

شائع September 28, 2018

31 جنوری 2012ء کو ہندوستانی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا کہ ہندوستان فرانس سے 126 ڈیسالٹ رافیل لڑاکا طیارے خریدے گا۔ اس معاہدے کے تحت فرانسیسی کمپنی ڈیسالٹ ایوی ایشن نے 18 لڑاکا طیارے مکمل تیار کرکے ہندوستان کو دینے تھے اور باقی 108 طیارے ہندوستان کے سرکاری ادارے ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ اور ڈیسالٹ ایوی ایشن کے اشتراک سے ہندوستان میں تیار ہونے تھے۔

اس معاہدے میں یہ بھی طے ہوا کہ ڈیسالٹ ایوی ایشن یہ طیارے بنانے کی ٹیکنالوجی ہندوستان منتقل کرے گی۔ معاہدے کی شرائط اور طریقہ کار طے کرنے کے لیے مذاکرات شروع ہوئے۔ 2014ء آگیا لیکن معاملات طے نہ ہوسکے۔ یہاں تک سب کچھ اصولوں کے مطابق چل رہا تھا لیکن اس کے بعد جو ہوا اس نے مودی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا۔

اس تمام مدت کے دوران طیاروں کا بجٹ دو گنا بڑھ جانے کے باعث مودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ 126 طیاروں کے بجائے مکمل تیار شدہ صرف 36 طیارے خریدے گی اور ہندوستانی سرکاری کمپنی کے ذریعے طیارے بنانے کا منصوبہ یہ کہہ کر ختم کردیا گیا کہ دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس جنگی طیارے بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے معاہدے کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا جسے مودی حکومت نے ماننے سے انکار کردیا۔ مودی حکومت نے بہانہ بنایا کہ رافیل معاہدے میں ملکی راز افشا ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا قومی سلامتی کے پیش نظر ہندوستانی حکومت رافیل معاہدہ اسمبلی میں پیش نہیں کرسکتی۔

پڑھیے: سابق فرانسیسی صدر کے انکشافات نے نریندر مودی کو مشکل میں ڈال دیا

وزیرِاعظم نریندر مودی نے 36 طیاروں کی خریداری کے لیے 10 اپریل 2015ء کو فرانس کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انیل امبانی ان کے ساتھ تھے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ انیل امبانی نے نریندر مودی کے فرانس جانے سے 13 دن پہلے ریلائنس ڈیفنس کے نام سے نئی کمپنی بنائی لیکن انیل امبانی اور ان کی کمپنی نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔

معاہدہ ہونے کے اگلے دن کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے انیل امبانی کی سرکاری معاہدے کے دوران موجودگی اور خریداری کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مودی سرکار نے رافیل طیارے 3 گنا مہنگے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدے سے انیل امبانی کو فائدہ ہوا ہے۔ انیل امبانی نے وضاحت دی کہ وہ بزنس مین کی حیثیت سے اجلاس میں شامل ہوئے۔ ایئر چیف مارشل برندر سنگھ اور وزیرِ دفاع نرملا سیتا رمن نے معاہدے کو صاف اور شفاف اور خریداری کو قانونی قرار دے دیا۔

یہ کشمکش ابھی عروج پھر تھی کہ سابق فرانسیسی صدر فرنکوئس ہولاندے نے فرانسیسی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ''ہندوستانی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے انیل امبانی کے ریلائینس گروپ کے ساتھ طیاروں کی ڈیل کرنے پر زور دیا۔'' اس کے بعد انہوں نے یہ بیان ہندوستان کے این ڈی ٹی وی پر بھی دیا۔ فرنکوئس ہولاندے کا یہ بیان مودی حکومت پر بم بن کر گرا۔ میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور اپوزیشن جماعت کے صدر راہول گاندھی کے بیانیے کو تقویت مل گئی۔

فرانسیسی صدر کے بیان کے بعد بھارتی اخبار میں لگنے والی سرخی
فرانسیسی صدر کے بیان کے بعد بھارتی اخبار میں لگنے والی سرخی

اس وقت مودی حکومت رافیل معاہدے میں کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے۔ یہ الزامات ابھی ثابت نہیں ہوئے لیکن ہندوستانی میڈیا اور صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ اس اسکینڈل کے سبب مودی حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا اور 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مودی حکومت شاید دوبارہ حکومت نہ بناسکے۔

ہندوستان میں اس اسکینڈل کے بارے میں میڈیا بھی تقسیم دکھائی دیا۔ رافیل اسکینڈل پر ’ری پبلک ٹی وی‘ اور ’این ڈی ٹی وی‘ کے پروگرام قابل ذکر ہیں۔ ری پبلک ٹی وی پر صحافی ارناب گوسوامی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں کہ کانگریس رائی کا پہاڑ بنا رہی ہے اور رافیل اسکینڈل جھوٹ پر مبنی ہے، جبکہ این ڈی ٹی وی کے راویش کمار مودی حکومت پر سخت تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز بھی اس وقت مودی سرکار پر تنقید کرتا دکھائی دیتا ہے۔ راج دیپ سردیسائی نے ہندوستان ٹائمز میں ایک کالم لکھا ہے اور رافیل اسکینڈل کو مودی حکومت کے لیے سب سے بڑا دردِ سر قرار دیا ہے۔ جیسے جیسے فرانسیسی صدر کے بیانات سامنے آ رہے ہیں میڈیا میں موجود حکومت کے حامی صحافیوں کے لیے حکومت کا دفاع بھی مشکل ہونے لگا ہے اور وہ بھی حکومت پر تنقید کرنے لگے ہیں۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر یہ رائے بن چکی ہے کہ مودی حکومت رافیل اسکینڈل میں مجرم ہے اور نریندر مودی نے اپنے دوست انیل امبانی کو اربوں روپوں کا فائدہ پہنچایا ہے۔ برصغیر کی سیاست میں اس وقت سب سے زیادہ اہم کردار اگر کوئی میڈیا ادا کر رہا ہے تو وہ سوشل میڈیا ہے۔ پاکستان میں بدلتی حکومت اور الیکشن میں وہی پارٹی کامیاب ہوئی ہے جس نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا ہے۔

مزید پڑھیے: 'بھارت کے کمانڈر ان تھیف کا افسوس ناک سچ'، کانگریس کی مودی کے خلاف مہم

راہول گاندھی سوشل میڈیا کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں اور انہوں نے سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلا رکھی ہے۔ اس وقت پورے ہندوستان میں ایک نعرہ سب سے زیادہ مقبول ہوگیا ہے اور وہ نعرہ ہے کہ ‘میرا وزیراعظم چور ہے۔’ کئی دنوں تک راہول گاندھی کا یہ نعرہ ٹویٹر انڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ رہا ہے۔

رافیل اسکینڈل کا کیا بنے گا؟ کیا اس کے ذمہ داروں کو سزا ملے گی؟ اور کیا واقعی اس کا مودی حکومت پر کوئی اثر پڑے گا؟ ان سوالات کے جوابات تو اگرچہ مشکل ہیں لیکن متوقع نتائج شاید بوفور اسکینڈل جیسے ہی ہوں گے۔ بوفور (Bofors) اسکینڈل 1980ء کی دہائی میں راہول گاندھی کے والد راجیو گاندھی اور سوئیڈن کے مابین اسلحہ خریدنے سے متعلق تھا جس میں راجیو گاندھی پر کِک بیک لینے کا الزام تھا۔

یہ الزام کافی ثبوتوں کے ساتھ ثابت بھی ہوتا رہا لیکن بعد ازاں یہ اسکینڈل بھی سیاست کی نذر ہوا۔ اس اسکینڈل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے راجیو گاندھی نے بھی پاکستان دشمنی کا نعرہ لگایا لیکن وہ نعرہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اس اسکینڈل نے راجیو گاندھی کی حکومت کو بہت سیاسی نقصان پہنچایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس الیکشن ہار گئی لیکن بوفور اسکینڈل آج تک عدالتوں میں دھکے کھا رہا ہے۔

رافیل اسکینڈل کو ہندوستانی تجزیہ کار بوفور سکینڈل سے بڑا اسکینڈل قرار دے رہے ہیں لیکن اس کا انجام بوفور اسکینڈل جیسا ہوتا ہی دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان میں صرف وقت بدلا ہے لیکن اسکینڈل اور سیاست تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ 38 سال پرانی ہی ہے۔

معاملے کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل منوہر لال شرما نے رافیل معاہدے کو ختم کرنے کے لیے اپیل دائر کی ہے اور سپریم کورٹ آف انڈیا نے رافیل اسکینڈل کو سننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مئی 2019ء میں ہندوستان کے عام انتخابات ہیں اور اگر اس وقت سپریم کورٹ مودی حکومت کو رافیل اسکینڈل کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے تو اس کا اثر عام انتخابات پر پڑے گا۔

پڑھیے: راہول گاندھی کے لیے وزیرِاعظم بننے سے بھی زیادہ اہم کام

اگر رافیل اسکینڈل میں مودی حکومت بچ بھی گئی تب بھی سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جو کیچڑ مودی حکومت پر اچھلے گا، اس سے نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے گر جائے گا۔

آج اگر ہم مودی حکومت کی مقبولیت کا ذکر کریں تو وہ پچھلے 5 سال کی بدترین منفی سطح پر آچکی ہے۔ حالاں کہ مودی سرکار نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ اچھے فرق سے حاصل کیا ہے لیکن میڈیا پر طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ حکومت نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو نوٹسز بھی جاری کیے ہیں اور این ڈی ٹی وی کو بند کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ اپوزیشن رہنماؤں کو بھی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ رافیل اسکینڈل پر خاموش رہیں۔ لیکن مودی حکومت شاید یہ بھول رہی ہے کہ جب ہوا کا طوفان مخالف سمت چلن لگے تو آپ زیادہ دیر اپنے پیر زمین پر جما کر نہیں رکھ سکتے۔

ان حالات کے پیشِ نظر مودی حکومت کے پاس دوبارہ حکومت بنانے کے لیے مقبولیت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے پاکستان دشمنی کا روایتی بیانیہ۔ اس لیے ہندوستانی آرمی چیف روز نئے بیان داغ رہے ہیں اور ہندوستانی وزیرِ خارجہ نے پاکستان کی دوستی کا جواب نفرت اور دشمنی میں دیا ہے۔

مزید پڑھیے: جنگ جو لڑی نہیں جائے گی!

ان کا خیال ہے کہ 2013ء کے ہندوستانی الیکشن میں بھی یہی نعرہ کامیاب ہوا تھا لیکن امید ہے کہ اب ہندوستانی عوام اس دھوکے میں نہیں آئیں گے۔

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024