مصر 2013 مظاہرے: 20 شہریوں کی سزائے موت برقرار
مصر کے دارالحکومت قائرہ کی عدالت نے 20 شہریوں کی سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دے دیا، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سابق صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے دوران احتجاج کرتے ہوئے 2013 میں ایک تھانے پر حملہ کرکے 13 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق عدالت کا کہنا تھا کہ 'فیصلہ حتمی ہے اور اس کے خلاف اپیل نہیں ہوسکتی'۔
اسی عدالت نے مذکورہ کیس میں 80 ملزمان کو 25 سال قید، دیگر 34 کو 15 سال قید اور ایک کم عمر کو 10 سال قید کی سزا سنائی جبکہ 21 کو رہا کردیا۔
مزید پڑھیں: مصر:اخوان المسلمون کے رہنماؤں سمیت 75 افراد کو سزائے موت
واضح رہے کہ مذکورہ کیس میں 156 افراد نامزد ہیں جنہیں یا تو سزائے موت سنائی گئی یا پھر انہیں پہلے ہی ٹرائل میں طویل قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
یہ سزائیں انہیں اگست 2013 میں کریسا تھانے پر حملے اور اس کو تباہ و نظر آتش کرنے کے الزام میں سنائی گئی تھیں جس میں 13 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں مصر کی عدالت نے سابق صدر حسنی مبارک کے استعفے کے لیے 2011 میں ہونے والے مظاہروں میں ملوث ہونے پر 75 افراد کو سزائے موت سنائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: مصر: جامعۃ الازہر کا جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کے خلاف سخت سزاؤں کا مطالبہ
یاد رہے کہ 2013 میں مصر کے اس وقت کے صدر محمد مرسی کو فوج کی جانب سے حکومت سے باہر کرنے اور گرفتار کرنے کے خلاف قاہرہ میں عوامی احتجاج شدت اختیار کرگیا تھا اور طویل دھرنا دیا گیا تھا۔
اس سے قبل 14 اگست 2013 کو مصری فوج کی جانب سے اس دھرنے کو بزور طاقت منتشر کردیا تھا جس میں 600 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ مصر نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم بھی قرار دیا تھا۔
مصر کی حکومت نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے بعد ان کے خلاف بے دردی سے کارروائیاں کیں اور کئی رہنماؤں سمیت ہزاروں کارکنوں کو جیل میں ڈالا اور سزائے موت دی۔
مصر کی ایک عدالت کے جج نے 2014 میں محمد مرسی کے 529 حامیوں کو سزائے موت سنائی تھی۔
مزید پڑھیں: ’مصر میں ایک اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مصری حکومت کے ان اقدامات پر شدید تنقید کی گئی اور گرفتار افراد کے خلاف آزادانہ ٹرائل کو یقینی بنانے پر زور دیا۔
2013 میں دھرنے میں عوام کو نشانہ بنانے کی مذمت دنیا بھر کے انسانی حقوق کی تنظمیوں کی جانب سے کی گئی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں ان فیصلوں کو ‘مضحکہ خیز انصاف ’قرار دیتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ پرامن احتجاج کرنے والے تمام گرفتار افراد کے خلاف مقدمات کو ختم کر دیا جائے۔