• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

افغانستان کا پولیو وائرس راولپنڈی میں ہونے کا انکشاف

شائع September 23, 2018

اسلام آباد: افغانستان کے صوبے قندھار اور ہلمند میں پیدا ہونے والا پولیو وائرس پاکستان میں راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں پائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

ایمرجنسی آپریشن سینٹر برائے انسداد پولیو کے نیشنل رابطہ کار رانا محمد صفدر نے بتایا کہ وائرس پشاور اور خیبرپختونخوا میں پایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مئی 2018 سے پہلے پاکستان پولیو سے پاک ہوجائے گا، رانا صفدر

اس حوالے سےانہوں نے بتایا کہ افغانستان سے پاکستان سفر کرنے والے افراد کے ساتھ وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے جس کے سدباب کے لیے بچوں کے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

رانا محمد صفدر کاکہنا تھا کہ افغانستان کی سرحد کے پاس تقریباً 14 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تاہم سیکیورٹی خدشات کے پڑوسی ملک کے مختلف صوبوں میں پولیو مہم جاری نہیں رکھی جا سکی۔

انہوں نے بتایا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے انکشاف ہوا کہ پولیو وائرس افغانستان سے پاکستان پہنچا۔

واضح رہے کہ 2013 میں شامی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ فاٹا کے علاقے میں موجود پولیو وائرس شام میں بھی پھیلا کیونکہ فاٹا کے جنگجوؤں نے لڑائی کی غرض سے شامی پٹی کا سفر کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: ’پولیو ویکسین کے استعمال کے بعد 3 بچوں کی ہلاکت‘

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں تین پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، تمام تینوں کیسز ایک ہی ضلع میں رپورٹ ہوئے۔

رانا محمد صفدر کا کہنا تھا کہ چوتھا پولیو وائرس کیس چارسدہ میں سامنے آیا جس میں 18 ماہ کا بچہ متاثر ہواتاہم وہ معذور نہیں ہوا کیونکہ بچے کی باقاعدہ ویکسین چل رہی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ 3 روزہ ویکسینیشن پروگرام کے تحت تقریباً 3 کروڑ 80 لاکھ سے زائد 5 سال تک کی عمر کے بچے مستفید ہوں گے۔

ڈاکٹر صفدر نے بتایا کہ انسداد پولیو مہم میں 6 سے 59 ماہ کے 3 کروڑ 50 لاکھ بچوں کو وٹامن اے سپلیمنٹ اور او پی وی بھی دیا جائے گا جو بچوں کے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے میں مددگار اور خسرہ جیسے دیگر امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان میں 40 فیصد غذا کو ضائع کردیا جاتا ہے‘

اس حوالے سے بتایا گیا کہ ملک گیر مہم میں تقریباً 2 لاکھ 60 ہزار اہلکار حصہ لیں گے، اس کے علاوہ 26 ہزار ایک سو 69 علاقائی انچارج، 7 ہزار 9 سو 58 یونین کونسل میڈیکل افسر اور 1 لاکھ 90 ہزار 9 سو 50 موبائل، 10 ہزار 2 سو 71 فکسڈ اور 11 ہزار 9 سو 98 ٹرانزٹ ٹیم ممبر شامل ہیں۔

اس ضمن میں علاقے کی سطح پر مقامی ٹیموں کی معاونت کے لیے 40 ایکسپرٹ بھی شامل ہوں گے۔


یہ خبر 23 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024