ڈراموں کی ڈرامے بازیاں!
ڈرامے دیکھتے ہیں آپ؟ نیوز چینل پر نہیں فیملی چینلز پر۔ میں دیکھنا تو نہیں چاہتا ہوں لیکن دیکھنے پڑتے ہیں، کیا کروں والدہ بُرا مان جاتی ہیں، کہتی ہیں ہر وقت انگریزی فلمیں ہی دیکھتے رہتے ہو!
سچ بات تو یہ ہے کہ میں چڑ گیا ہوں آج کل کے بے کار، بے ہنگم اور بے تکے ڈراموں سے۔ سننے میں تو یہ میرا ذاتی مسئلہ لگتا ہے، لیکن ہے نہیں۔ دراصل یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ ان کا مقصد عوام کو تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ نوٹ چھاپنا رہ گیا ہے۔
اس بات کی تصدیق کے لیے آپ کسی ڈرامہ آرٹسٹ کے فیس بک پیج کو جا کر دیکھیے گا۔ وہ اس بات پر پُرمسرت نہیں ہوتے کہ وہ معاشرے میں کوئی تبدیلی لارہے ہیں بلکہ بس اسی بات پر اچھل رہے ہوتے ہیں کہ ڈرامے کی ریٹنگ اچھی آئی ہے۔
ریڈیو کے لیے دنیا کا پہلا ڈرامہ A Rural Line on Education سن 1921 میں لکھا اور پیش کیا گیا تھا۔ ٹی وی پر پہلا ڈرامہ The Queen's Messenger سن 1928 میں آیا۔
میرے بچپن کے کامیاب ترین ڈرامے ’چاند گرہن‘، ’کشکول‘، ’سنہرے دن‘، ’دھواں‘، ’انگار وادی‘، ’الفا براوو چارلی‘ اور ’نجات‘ تھے۔ ویسے جنجال پورہ بھی کم نہیں تھا۔ میرے والدین کے زمانے کے کامیاب ترین ڈرامے ’ان کہی‘، ’تنہائیاں’، ’آنگن ٹیڑھا’ اور ’جانگلوس‘ تھے۔ فہرست نہ صرف بہت لمبی بلکہ تڑنگی بھی ہے۔
لیکن پھر میں نے تنگ آکر ڈرامے دیکھنا ہی چھوڑ دیے۔ وجہ؟ ڈرامے دیکھ دیکھ کر ایک عجیب سی بے حسی، کڑواہٹ، کدورت، نحوست کا سا سماں بندھ جاتا ہے اور انسان کا اپنے آپ پر سے بلکہ انسانیت پر سے ہی اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ یہ جن ڈراموں کا میں نے ذکر اوپر کیا ہے یہ تقریباً تمام کے تمام 'سبق آموز' تھے۔
پڑھیے: پاکستانی مارننگ شوز کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے
’وارث‘ نے اس زمانے کے مرد پرستانہ رویے کو اجاگر کیا، ’چاند گرہن‘ میں وڈیرہ شاہی، طاقت کا بے دریغ استعمال اور آخرکار قانون کی بالادستی دکھائی گئی۔ ’کشکول‘ میں بیوروکریسی کی نیک نیتی، شہادت اور معاشرے میں سول سوسائٹی کے قیام کا درس دیا گیا۔ ڈرامہ ’سنہرے دن‘ میں دکھایا گیا ہے کہ، فوجی بھی انسان ہوتے ہیں اور لوگ فوج میں شمولیت صرف آمر بننے کے لیے نہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ ڈرامہ ’دھواں‘ کا مرکزی خیال تھا کہ خفیہ ادارے والے بھی انسان ہوتے ہیں، اپنوں اور پیاروں کو وہ بھی کھو دیتے ہیں، روتے بھی ہیں اور محبت بھی کرتے ہیں۔
’انگار وادی‘ کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز جرائم کا پردہ فاش کرنا تھا۔ ’الفا براوو چارلی‘، ایک بار پھر فوج کی نمائندگی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح اور نجانے کتنے ہی محاذوں پر ہمارے نوجوان ملک کی حفاظت کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ’جنجال پورہ‘ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق تھا اور بتلاتا تھا کہ غربت کیا ہوتی ہے، ذمہ دار شہریت کیا ہوتی ہے، کس طرح خاندان بکھر جاتے ہیں۔ اور ’جانگلوس‘؟ وہ تو اتنا سبق آموز تھا کہ بیچ میں ہی رکوانا پڑا تھا۔
پچھلی دہائیوں کے تقریباً سب ہی ڈرامے سبق آموز اور عوام کی کردار سازی یا رائے سازی پر مبنی تھے۔ اور آج کے ڈرامے؟ بیوہ کردو، رنڈوے کی شادی کردو، اتنی امارت دکھاؤ کہ متوسط طبقے کو متلی ہونے لگے، کبھی بچے گم کردو، کبھی باپ گم کردو، بڑے گھر سے چھوٹے گھر میں لے آؤ، غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دو، بیماری میں جکڑ دو، تقریباً سب کو ماردو، لوگوں کو رلاؤ، خوب رلاؤ، ریٹنگ بڑھاؤ، ریٹنگ کے بڑھنے کا ڈھنڈورا پیٹو اور پھر ڈرامہ ختم۔
کیا کسی نے کوئی سبق حاصل کیا؟ پتہ نہیں۔ کہیں کسی کی دل آزاری تو نہیں ہوئی؟ ہمیں کیا۔ کیا ہمارے اس ڈرامے کے نتیجے میں معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آئی؟ کیا پتہ آئی ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نوجوان نسل نے کوئی غلط بات سیکھ لی؟ سیکھی ہو تو سیکھی ہو، ریٹنگ تو آ گئی ناں۔
پہلے زمانوں میں چینلز ذمہ دار ہوا کرتے تھے اور عوام کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا۔ آج ان کی نظریں چند لکیروں پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ یہ لکیریں ریٹنگ کی لکیریں کہلاتی ہیں۔ پاکستان میں مشکل سے چند سو گھرانوں میں ایک مشین لگادی گئی ہے۔ اس مشین کا کام یہ حساب رکھنا ہوتا ہے کون سا چینل، کس وقت، کتنی دیر دیکھا گیا اور بس کام ختم۔ ہر ہفتے یہ ریٹنگ چینلز کو یقین دلاتی ہے کہ کون سا پروگرام کتنا دیکھا گیا۔
پڑھیے: ریٹنگ کے لیے سالا کچھ بھی کرے گا
عمرانیات اور تحقیقی اصولوں کے مطابق کسی بھی طبقے کی اگر رائے معلوم کرنی ہو تو، اس آبادی کے کم از کم 10 فیصد حصے کی رائے ضرور معلوم کی جائے۔ اس حساب سے پاکستانی عوام کا 10 فیصد کم و بیش 2 کروڑ نکلتا ہے اور اس 10 فیصد کا بھی آدھے سے زیادہ حصہ دیہات میں رہائش پذیر ہے۔
اب بتائیں چند شہروں کے چند سو گھرانوں پر مبنی رائے کو پوری قوم پر کیسے تھوپا جاسکتا ہے؟ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ریٹنگ کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ چینل دیکھا گیا، یہ ناپنا نہیں ہوتا کہ ردِ عمل کیا دیا گیا۔
لوگ واہیات پروگرامنگ دیکھ کر غصہ کررہے تھے یا اعلیٰ ہدایت کاری دیکھ کر داد دے رہے تھے، ان کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ بس دیکھ رہے تھے یہی کافی ہے۔ کڑھ رہے تھے یا سرشار تھے، اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
بس ریٹنگ کے میٹر کے حساب سے پروگرام دکھانے ہیں، کسی کو نہیں پسند آتا تو نہ آئے۔
تبصرے (5) بند ہیں