• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

یمن میں قحط کے خلاف جنگ میں شکست کا خطرہ ہے، سربراہ انسانی حقوق

شائع September 22, 2018

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے بدترین انسانی حقوق کے بحران کا سامنا کرنے والے ملک یمن میں قحط کے خلاف جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق انسانی حقوق کے سبراہ مارک لوکوک نے موجودہ صورتحال کو ’بدترین‘ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ حالیہ ہفتوں کی صورتحال خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ملک بھر میں پھیلتے قحط کے نتیجے میں بڑی تعداد میں زندگیوں کے نقصان کو روکنا ناممکن ہے لہٰذا اب ہمیں ایک نقطہ آغاز پر پہنچنا چاہیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پہلے ہی قحط کی ایسی صورتحال دیکھ رہے ہیں جہاں لوگ پتے تک کھا رہے ہیں‘۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ڈرامائی طور پر معیشت کی تباہی‘ کے نتیجے میں یمن کی کرنسی کی قیمت 30 فیصد تک کم ہونا اور بحیرہ احمر کی حدیدیہ بندرگاہ کے ارد گرد جاری لڑائی میں تیزی آنا دونوں ایسے واقعات ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امدادی سرگرمیوں کو مغلوب کرنے کی دھمکی ہے۔

خیال رہے کہ حدیدیہ بندرگارہ خوراک، ادویات اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی کے لیے اہم بندرگاہ ہے۔

مزید پڑھیں: یمن میں 50 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار

اگر یمن تنازع کی بات کی جائے تو عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک میں 2014 میں اس وقت تنازع شروع ہوا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھالا اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کردہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

اس کے بعد 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد نے حوثیوں کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا۔

تاہم اس تنازع کی زد میں بڑی تعداد میں عام شہری آئے اور ہیضے کی وبا نے شدت اختیار کی، جبکہ تنازع کی زد میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

مارک لوکوک کا مزید کہنا تھا کہ رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروہوں نے 80 لاکھ سے زائد یمن کے شہریوں کو امداد فراہم کی اور ان میں سے زیادہ تر ایسے تھے، جنہیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ ان کی اگلی غذا کہاں سے آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر یمنی بیرونی خوراک پر انحصار کرتے ہیں اور کرنسی کی صورتحال نے 10 لاکھ کے قریب شہریوں کے لیے خوراک کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا، جس کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں کا حصہ نہ ہونے والے یمنی مقررہ مقدار میں خوراک نہیں حاصل کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ یمن کی صورتحال کے باعث ایندھن کی قیمتوں میں بھی ’ بے پناہ‘ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں میں حدیدیہ کے اطراف بڑھتی ہوئی جنگ نے ضرورت مندوں کے لیے ’زندگی کا راستہ‘ روک دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یمن: حدیدہ میں سعودی اتحاد کی فضائی بمباری، 20 افراد ہلاک

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں کی لڑائی میں حدیدیہ سے صنعا جانے والا زمینی راستہ منقطع ہوگیا ہے جبکہ یہ راستہ تجارتی درآمد کنندگان اور امدادی گروہوں کے لیے امداد فراہم کرنے کا مرکزی راستہ تھاُ۔

مارک لوکوک نے کہا کہ مسلح گروہوں نے انسانی حقوق کی تمام سہولیات پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کے حملوں کے نتیجوں میں درجنوں شہری ہلاک جبکہ صحت اور پانی فراہم کرنے کی سہولیات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

انسانی حقوق کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً 35 لاکھ اضافی لوگ خوراک سے محروم 80 لاکھ افراد میں شامل ہوسکتے ہیں‘۔

مارک لوکوک نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اپنی امدادی سرگرمیوں کو بڑھائے تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم 2 کروڑ 90 لاکھ یمنی شہریوں کی تمام ضروریات پوری کرسکے‘۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024