• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

’کوئی ٹرمپ کو سمجھائے کہ امریکا نے کس طرح مشرق وسطیٰ کو غیرمستحکم کیا‘

شائع September 21, 2018

وفاقی وزیرِ انسانی حقوق اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی انہیں یہ سمجھائے کہ امریکا نے کس طرح مشرقِ وسطیٰ کو غیر مستحکم کیا ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’ہم مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی حفاظت کرتے ہیں، اور یہ ہمارے بغیر زیادہ دیر نہیں رہ سکتے، لیکن اس کے باوجود ان ممالک کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا مشرقِ وسطیٰ کے ان ممالک کے اس اقدام کو یاد رکھے گا۔

امریکا کے صدر نے تیل کی پیدوار کو اجارہ داری قرار دیتے ہوئے کہا کہ تیل برآمد کرنے والے ممالک (اوپیک) تیل کی قیمتوں کو کم کردیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ 'مجھے یقین ہے کہ اس وقت واشنگٹن میں کوئی ہوگا جو ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخ بتاسکتا ہے کہ کس طرح امریکا نے تاریخی طور پر اسرائیل کو غیر قانونی طور پر وسعت دے کر اور خطے میں بے لگام عسکریت پسندی کو بڑھا کر غیر مستحکم کیا۔'

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تیل بنیادی طور پر مغربی ایشیائی ممالک اور خلیجی ممالک سے آتا ہے، اس میں مشرقِ وسطیٰ کا حصہ نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اوپیک ممالک کے بارے میں بھی بتایا جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ 2016 میں دنیا کے بڑے تیل پیداواری ممالک نے 2014 میں تیل کی منڈی کے کریش ہونے کے بعد تیل کی پیداوار میں کمی پر اتفاق کیا تھا تاکہ تیل کی قیمتوں کو بڑھایا جائے۔

2015 میں امریکا نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا تاہم رواں برس اس نے اس سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی تھی۔

اس پابندی کے بعد بھارت اور چین جیسے بڑے ممالک نے تہران سے تیل خریدنے سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی، جس کے بعد خام تیل کی پیداوار کم سطح پر چلی گئی تھی۔

ایران کے علاوہ اوپیک ممالک میں شامل ایک اور ملک وینزویلا پر بھی واشنگٹن کی پابندیاں عائد ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024