آنگ سانگ سوچی کے خلاف ’پوسٹ‘ پر سابق کالم نگار کو سزا
میانمار کی عدالت نے ریاستی میڈیا کے سابق کالم نگار کو آنگ سانگ سوچی کے خلاف توہین آمیز فیس بک پوسٹ کرنے کے جرم میں 7 سال قید کی سزا سنادی۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عدالت کی جانب سے کیا جانے والے اس فیصلے کو ملک میں آزادی اظہار کے لیے خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔
ینگون کی مغربی ضلعی عدالت کے ترجمان ہتھے آنگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ نجار من سوشے کو بغاوت پر مبنی بیانات پر گزشتہ روز سزا سنائی گئی تھی۔
مزید پڑھیں : روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: حقائق سامنے لانے پر 2 غیر ملکی صحافیوں کو 7 سال قید
عدالتی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’وہ (کالم نگار) سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بک پر اسٹیٹ کاؤنسلر آنگ سانگ سوچی کے خلاف توہین آمیز پوسٹس تحرہر کرنے کے جرم کا مرتکب ہوئے تھے، ان پوسٹس سے عوام کو آنگ سانگ سوچی کا غلط تاثر مل سکتا تھا۔‘
نجار من سوشے نے گزشتہ حمایت یافتہ فوجی حکومت کے ماتحت کالم نگار کی خدمات سر انجام دی تھیں۔
آنگ سانگ سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے 2016 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ ان کی جماعت کے خلاف شکایتی بیانات لکھتے رہے ہیں۔
2013 میں امریکا کے صدر بارک اوباما نے آنگ سانگ سوچی کے گال پر بوسہ دیا تھا، جس کے خلاف پوسٹ کرنے پر نجار من سوشے کو 12 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : میانمار: علیحدگی پسند گروپ کی کوریج پر متعدد صحافی گرفتار
آنگ سانگ سوچی پر مذکورہ معاملے سے متعلق میانمار کے عوام خصوصاً یو ایس ڈی پی کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی، ان میں نجار من سوشے بھی شامل تھے جنہوں نے اسٹیٹ کونسلر کے خلاف تنقید کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا تھا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق حقائق سامنے لانے پر ریاستی قوانین توڑنے کے الزام کا سامنا کرنے والے 2 غیر ملکی صحافیوں کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
دونوں صحافیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی رپورٹنگ کے دوران ریاست کے خفیہ قوانین کی خلاف ورزی کی اور برطانوی سامراج کے زمانے کے رائج قوانین کے تحت اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال تک ہے۔
تاہم صحافیوں کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی اور اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ برس ستمبر میں رخائن گاؤں میں 10 روہنگیا مسلمانوں کے ماورائے عدالت قتل کے حقائق سامنے لانے کے لیے انہیں وہاں بھیجا گیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ینگون پولیس کی جانب سے عشائیہ پر بلا کر انہیں گرفتار کیا گیا اور ان کی دستاویزات رکھ لی گئیں، جس کے بعد انہیں خفیہ مواد رکھنے کے الزام میں حراست میں رکھا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس تین صحافیوں کو میانمار میں علحیدگی پسند گروپ ٹانگ نیشنل لبریشن آرمی (ٹی این ایل اے) کی رپورٹنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔