پاکستان میں آزادی صحافت پر قدغن لگائی جارہی ہے، سی پی جے
صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی (سی پی جے) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آزاد صحافت کی فضا تباہی کا شکار ہے جبکہ صحافیوں کے قتل اور ان کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
سی پی جے نے ملک کے مختلف شہروں کے دوروں کے بعد ایک خصوصی رپورٹ تیار کی، جس کے مطابق صحافیوں اور فری لانسرز کے ذہن میں’محصور میڈیا کا تصور‘ موجود ہے۔
یاد رہے کہ سی جے پی دنیا بھر میں آزادی صحافت کے فروغ کے لیے کام کرنے والا ادارہ ہے۔
ڈان ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق سی جے پی کا کہنا تھا کہ ’فوج نے خاموش لیکن مؤثر طریقے سے رپورٹنگ پر پابندیاں لگائیں، جن میں مختلف علاقوں تک رسائی سے روکنا، براہ راست یا مختلف طریقوں سے خود ساختہ سنسر شپ کو فروغ دینا، ایڈیٹرز کو کوریج سے متعلق شکایت کرنا اور یہاں تک کہ مبینہ طور رپورٹرز کے خلاف تشدد کو فروغ دینا شامل ہیں'۔
سی جے پی کے مطابق جرنلسٹ اور پریس فریڈم ایڈووکیٹس کا کہنا تھا کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر خودکش حملے میں فوج کے بروقت ردعمل کے بعد صحافیوں کے خلاف تشدد میں کمی آئی۔
رپورٹ کے مطابق ’صحافیوں کے قتل میں کمی ایک اچھی خبر ہے لیکن حملے کا خطرہ برقرار رہتا ہے'۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک بھر کے صحافی اور ایڈیٹرز نے خود کو ’وسیع پیمانے پر دھمکیوں‘ کے پیش ںظر خود ساختہ سنسرشپ تک محدود کرلیا ہے۔
مزید پڑھیں : ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری
سی جے پی کا کہنا تھا کہ صحافیوں نے بتایا 'مذہبی، شرپسند عناصر، معیشت اور اراضی کے تنازعات کی رپورٹنگ کے دوران بہت احتیاط اختیار کرنا پڑتی ہے کیونکہ یہ موضوعات حکومتی عہدیداران، شرپسند گروہوں، مذہبی انتہاپسندوں اور فوج کو بھڑکا سکتے ہیں'۔
رپورٹ کے مطابق انسداد دہشتگردی کا قانون پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس کسی الزام کے بغیر لوگوں کو 90 دن میں زیر حراست رکھنے کی اجازت دیتا ہے، خدشہ ہے یہ قانون تنقیدی رپورٹنگ کی سزا کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ نامی تنظیم کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسد بیگ کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ صحافیوں کے قتل کی تعداد میں اس لیے کمی آرہی ہے کیونکہ 5 سے 6 برس قبل میڈیا کی جانب سے جو مزاحمت سامنے آتی تھی وہ بہت تیزی سے ختم ہوئی ہے'۔
یہ بھی پڑھیں : میڈیا کی آزادی محدود کرنے کی کوششوں پر سی پی این ای کا اظہار تشویش
انہوں نے مزید کہا کہ ’اور ایسا شاید بہت منظم کنٹرول کی وجہ سے ہے، لوگ جانتے ہیں کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا، وہ کون سی حدین ہیں جو وہ عبور نہیں کرسکتے'۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ احمد نورانی نامی صحافی پر حملہ، جیو کی نشریات بند ہوجانا، ڈان اخبار کی ترسیل پر پابندی لگنا، گزشتہ ایک برس میں آزادی صحافت کے ختم ہونے کی مثالیں ہیں۔
رپورٹ میں سال 2016 میں ڈان اخبار میں اعلیٰ سول ملٹری حکام کی ملاقات سے متعلق شائع کی گئی خبر کا حوالہ بھی دیا گیا، یہ خبر بعد میں ڈان لیکس کے نام سے جانی گئی۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ ’صحافی سول و عسکری حکام کی جنگ کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں جہاں وہ مصیبت سے دور رہتے ہوئے رپورٹنگ کی کوشش کرتے ہیں'۔
رپورٹ کے مطابق ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کا کہنا تھا کہ ’فوج نے مذکورہ خبر سے متعلق مؤقف اختیار کیا تھا کہ آپ نے اس اجلاس سے متعلق خبر شائع کرکے ہماری پوزیشن کو مجروح کیا'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈان لیکس تاحال قائم ہے کیونکہ سول ملٹری تنازعات ختم نہیں ہوئے‘.
سی جے پی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’فوج اور دیگر اداروں نے صحافت کی آواز دبانے کے لیے لائنز آف کنٹرول قائم کی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 'میڈیا میں موجود خودساختہ سنسر شپ کی وجہ سے صارفین ملک کو درپیش سنگین مسائل کی حقیقت سے لاعلم ہیں'۔