خیبرپختونخوا:بلدیاتی حکومتوں کو مختص رقم سے63 ارب روپےکم جاری ہونےکا انکشاف
پشاور: خیبر پختونخوا کی سابق حکومت کی جانب سے گزشتہ 3 مالیاتی سالوں کے دوران قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو ان کے مختص حصے سے 63 ارب روپے کم فراہم کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ سالانہ صوبائی ترقیاتی پروگرام کے تحت ضلعی، تحصیل، گاؤں اور ہمسایہ کونسل سمیت 3 سطح کی بلدیاتی حکومتوں کے لیے 115 ارب روپے کی مختص رقم میں سے محض 52 ارب روپے گزشتہ 3 سالوں کے دوران جاری کیے گئے۔
ایک ضلعی ناظم نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بلدیاتی حکومت کو مختص حصے سے کم رقم فراہم کرنا آئین کے آرٹیکل 140-اے اور خیبر پختونخوا کے مقامی حکومتوں کے ایکٹ برائے سال 2013 کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ملک میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کروانے کا فیصلہ
واضح رہے کہ بلدیاتی حکومت کے پہلے سال (16-2015) میں صوبائی حکومت نے مقامی حکومتوں کے 27 ارب روپے کے فنڈز روک لیے اور کُل حصے 42 ارب روپے میں سے صرف 15 ارب روپے جاری کیے تھے۔
صوبائی ترقیاتی پروگرام کا کُل تخمینہ 175 ارب روپے تھا جس میں صوبائی حصہ 142 ارب روپے اور غیر ملکی فنڈڈ حصہ 33 ارب روپے تھا، جس میں بلدیاتی حکومت کا حصہ 42 ارب روپے رکھا گیا تھا۔
اسی طرح بلدیاتی حکومتوں کے دوسرے مالی سال (17-2016) میں صوبائی حکومت نے 27 ارب روپے جاری کیے اور 9 ارب روپے روک لیے جبکہ 125 ارب روپے کے صوبائی ترقیاتی پروگرام میں بلدیاتی حکومتوں کا حصہ 36 ارب روپے تھا۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: ضلعی حکومتیں بلدیاتی نظام میں آمدن بنانے میں ناکام
بلدیاتی حکومتوں کے تیسرے سال یعنی گزشتہ مالی سال (18-2017) میں ترقیاتی کاموں کے لیے 208 ارب روپے رکھے گئے جس میں صوبائی حصہ 126 ارب روپے اور غیر ملکی فنڈز کا حصہ 82 ارب روپے تھا۔
اس میں 30 فیصد کی شرح کے مطابق بلدیاتی حکومتوں کے حصے کے طور پر 37.8 ارب بجٹ میں مختص کیے گئے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے بلدیاتی اداروں کے فنڈز کی کٹوتی کو مختلف تناظر میں درست اقدام قرار دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق صوبائی محکمہ خزانہ نے فیصلہ کیا ہے کہ بلدیاتی فنڈز ان کو جاری کیے جائیں گے جنہوں نے پچھلے جاری کردہ فنڈز کا 60 فیصد حصہ استعمال کر لیا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا احتساب کمیشن پر 4 سال میں ایک ارب روپے سے زائد اخراجات
اس حوالے سے شانگلہ کے ضلعی ناظم نیاز احمد نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے فنڈز جاری کرنے کے لیے پچھلے فنڈز میں سے 60 فیصد رقم کے استعمال کی شرط خیبر پختونخوا کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر صوبائی حکومت بلدیاتی حکومت کو اس کا 30 فیصد مختص حصہ نہیں دینا چاہتی تو قانون سے وہ شرط ہی حذف کردے۔
اس کے علاوہ صوبائی محکمہ خزانہ اور اس کے حکام کو فنڈز کے استعمال میں سست روی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر صوبائی محکمہ خزانہ مالی سال کے اختتام سے محض ایک روز قبل فنڈز جاری کرے گا تو بلدیاتی حکومت کے لیے انہیں استعمال کرنا ممکن نہیں ہوگا۔