کم عمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کا ایک اور واقعہ
پاکستان میں کم عمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کا ایک اور افسوسناک واقعہ سامنے آیا ہے جس پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے نوٹس لیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو تشدد کرنے والی خاتون کی شناخت کی ہدایت کردی۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے سوشل میڈیا پر وائلر ہونے والی ویڈیو کا نوٹس لیا، جس میں ایک خاتون کم عمر ملازمہ پر تشدد کررہی تھی۔
مزید پڑھیں: ملازمہ پر تشدد کا الزام، ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر کے خلاف مقدمہ درج
انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے رابطہ کرکے افسران کو کم عمر ملازمہ پر تشدد کرنے والی خاتون کی فوری شناخت کی ہدایت جاری کی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز خاتون کی جانب سے ایک کم عمر ملازمہ پر تشدد کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون چائے میں پتی زیادہ ڈالنے پر کم عمر ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: سازش میں 'مافیا' ملوث، اہلیہ جج
ایک سوشل میڈیا صارف کا ٹوئٹ، ریٹوئٹ کرتے ہوئے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ 'کیا کوئی مذکورہ خاتون کی شناخت کرسکتا ہے کہ وہ کس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں، یہ تفصیلات کارروائی کے لیے درکار ہیں'۔
بعد ازاں انہوں نے مزید ایک ٹوئٹ کیا کہ اس معاملے میں خاتون کی شناخت کے لیے ایف آئی اے کے سائبر ونگ کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ گھریلو ملازمین، خاص طور پر کم عمر گھریلو ملازمین، پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی متعدد ایسے واقعات منظر عام پر آتے رہے ہیں، جن کے سامنے آنے پر سخت کارروائی کا عندیہ بھی دیا گیا لیکن ایسے واقعات کا تدارک کرنے کے لیے موثر قانون سازی اور عوام میں شعور اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل 6 جون 2018 کو اسلام آباد کی زنانہ پولیس نے ساہیوال کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) کنول بھٹو کے خلاف نو عمر ملازمہ پر تشدد کرنے کے الزام پر مقدمہ درج کرلیا تھا، واقع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد میں بنی گالہ میں مقیم کنول بھٹو نے مبینہ طور پر 18 سالہ ملازمہ پر ان کی بیٹی کو نہلانے کے دوران رلانے پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
مزید پڑھیں: لاہور میں 25 سالہ ملازمہ کی پراسرار موت
علاوہ ازیں کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظر عام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا گیا تھا۔
بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔