چولستان میں برساتی پانی جمع کرنے سے اربوں کی بچت
اسلام آباد: چولستان کے ریگستانی اور نیم صحرائی علاقے میں بارش کے بعد جمع ہوجانے والے پانی کو قابلِ استعمال بناکر اب سالانہ چھ ارب روپے کی بچت کی جارہی ہے۔
یہ وسیع و عریض خطہ چولستانی تھر بھی کہلاتا ہے ۔ یہاں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز ( پی سی آر ڈبلیو آر) نے بارش کے پانی کو محفوظ کرکے اربوں روپے کی بچت کی ہے بلکہ اب سارا سال پانی دستیاب ہونے سے انسانوں اور مویشیوں کو دوسرے علاقوں تک نقل مکانی نی بھی کم ہوئی ہے۔
اس طرح مویشیوں اور فصلوں کی کمی کی صورت میں قومی معیشت کا نقصان بھی کم ہوا ہے۔
دوسری جانب ان آبی علاقوں کی اطراف ایک ماحول دوست اور زندگی کیلئے معاون فضا قائم ہوگئی ہے ۔ اب یہاں پرندوں اور دیگر جانداروں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ساتھ ہی نئے پودے بھی اُگنے لگے ہیں۔
خبررساں ایجنسی اے پی پی سے بات کرتے ہوئے پی سی آر ڈبیلو آر کے چیئرمین محمد اسلم طاہر نے کہا کہ چولستان صحرا میں ترقیاتی منصوبوں کا اہم مقصد یہی ہے کہ خشک سالی میں لوگوں اور جانوروں کو پانی مسلسل فراہم کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ اس علاقے میں 1999 کی خشک سالی زراعت اور جانوروں کیلئے بہت ہی تباہ کن ثابت ہوئی تھی۔
اسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے پی سی آر ڈبلیو آر نے دینگڑھ فیلڈ سٹیشن پر تحقیق کی اور برساتی پانی کو استعمال کرنے کیلئے ایک اہم منصوبہ تشکیل دیا۔
ادارے کے چیئرمین کے مطابق مطالعے سے انکشاف ہوا کہ پانی کو جمع کرنے کیلئے ضروری ہے کہ زمین میں پانی جمع کرنے کی استعداد ہو اور اس میں پانی رسنے کی رفتار بھی کم ہو۔
ادارے میں صحرا زدگی (ڈیزرٹفیکیشن) کنٹرول کے ڈائریکٹر جنرل محمد اکرم نے بتایا کہ ریسرچ کے بعد بارش کے پانی کو جمع کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ضائع ہونے والے عام بارش والے سالوں 307 ملین کیوبک میٹر پانی کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
سائنسی انداز میں کئے گئے سروے کے بعد پورے علاقے میں 92 ریزروائر ( آبی ذخیرے) بنانے کی نشاندہی کی گئی جن میں ہر ایک کم از کم 15000 کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔
ایک لاکھ انسان اور دو لاکھ مویشیوں کیلئے ستر لاکھ کیوبک میٹر پانی درکار ہوتا ہے جبکہ باقی ذخیرہ کیا گیا تین سو ملین کیوبک میٹر پانی زراعت اور فارمنگ کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب پانی کے تالابوں کو مچھلیاں پال کر ان کا گوشت حاصل کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔