تعلیمی انقلاب کیسے آئے گا؟
وزیرِ اعظم عمران خان نے تعلیمی اصلاحات کو اپنی حکومت کا مرکزی ہدف قرار دیا ہے۔ ان کے ابتدائی 100 دن کے ایجنڈا میں "سماجی خدمات میں انقلابی تبدیلیوں" کی بات کی گئی ہے جس میں صحت اور تعلیم بھی شامل ہے۔ نئی حکومت کی تعلیم پر توجہ کی بہت ضرورت ہے۔ پاکستان میں سرکاری تعلیم کے پست معیار، امتحانی بورڈز میں کرپشن، اور وسیع پیمانے پر نقل نے مل کر ہماری قوم کو رو بہ زوال کیا ہے۔
پاکستان کے تعلیمی ایمرجنسی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ جہاں بچوں کو رسمی نظامِ تعلیم میں لانا ترجیح ہونی چاہیے، وہیں اس سے بھی زیادہ بڑی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ اسکول جانے والے بچوں کو معیاری تعلیم ملے۔
پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کا مرکزی چیلنج تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے جس کی پیمائش اس بات سے کی جاتی ہے بچے وہ معلومات حاصل کر رہے ہیں اور وہ چیزیں سیکھ رہے ہیں جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے یا نہیں۔ اور یہ سب کچھ تیز رفتاری سے کم قیمت میں اور وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔
2007 میں ہونے والی ورلڈ بینک کی ایک تحقیق میں اس حوالے سے ٹھوس ثبوت سامنے آئے تھے کہ معاشی ترقی اور معاشرتی مساوات کی بنیاد اسکول میں گزارے گئے سال نہیں بلکہ معیارِ تعلیم ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کے دوران اس بات پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے کہ کمرہ جماعت کے اندر کیا ہوتا ہے۔ اس کے بجائے ان کی توجہ اسکولوں میں سہولیات اور اسکولوں کی انتظام کاری بہتر بنانے پر ہوتی ہے کیوں کہ یہ تدریس کے معیار اور کلاسوں کے اندر سیکھنے کے عمل کو بہتر بنانے سے زیادہ آسان اور زیادہ نظر آنے والے کام ہیں۔
پڑھیے: اساتذہ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے سب سے اچھا طریقہ کیا؟
تعلیمی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹس پاکستان کے سرکاری اسکولوں میں بچوں کی ریاضیاتی اور پڑھنے لکھنے کی صلاحیتوں میں موجود خلیج کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اڈاپٹ کیے گئے سرکاری اسکولوں اور این جی اوز کے اسکولوں کے بچوں کے جب ایڈ ایکوئیل (EDeQUAL) جیسے اداروں کی جانب سے جامع امتحانات لیے گئے تو ان کے درمیان زبردست خلیج سامنے آیا۔ چھٹی جمات کے بچے عموماً پاکستان کے قومی نصاب کی تیسری جماعت کے ریاضی کے امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو 10 سالہ بچے کا ریاضی کے حوالے سے 4 سال کا خلیج موجود ہے۔ ایسے اسکولوں کے کچھ ہی بچے کبھی میٹرک کریں گے، مشہور یونیورسٹیوں اور پروفیشنل ملازمتوں تک پہنچنا تو بہت دور کی بات ہے۔
سائنس، ٹیکنالوجی اور میتھمیٹکس میں معیاری تعلیم فراہم کرنا پاکستان کی تعلیمی اصلاحات کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر اسکولوں کی عمارتوں، اساتذہ کی بھرتیوں اور اسکولوں کے انتظام کو بہتر بنانے پر خرچ کیے پیسوں کا فائدہ نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس سے ایسے طلباء پیدا ہوں گے جو تنقیدی سوچ رکھتے ہوں، مسائل حل کر سکتے ہوں، اچھا لکھ اور پڑھ سکتے ہوں، اور اعداد و شمار کے ساتھ مؤثر انداز میں کام کر سکتے ہوں۔
تعلیمی معیار کو تیز تر انداز میں بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کو ضرور شامل کیا جانا چاہیے۔ ٹیکنالوجی اساتذہ اور طلباء کو ایسے تعلیمی مواد اور امتحانی طریقہ کار تک رسائی دیتی ہے جو کہ ویسے ان کی پہنچ میں نہیں ہوتے۔ تعلیم میں ٹیکنالوجی اپنانے سے اساتذہ کے ہنر اور صلاحیتوں میں بہتری آ سکتی ہے، طلباء بے مثال اور اعلیٰ معیار کی تعلیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے جو کہ ان کی ضروریات کے مطابق ردوبدل شدہ ہے، اور طلباء کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ امتحان ممکن ہو سکیں گے۔ ٹیکنالوجی اساتذہ کی جگہ تو نہیں لے سکتی، مگر وہ اساتذہ جو ٹیکنالوجی استعمال کریں گے، بالآخر ان اساتذہ کی جگہ لے لیں گے جو ٹیکنالوجی استعمال نہیں کرتے۔
آج ٹیکنالوجی پر مبنی ایسے تعلیمی نظام جو نتائج بھی فراہم کرتے ہیں، پاکستان میں موجود ہیں۔ اڈاپٹ کیے گئے سرکاری اسکولوں اور سندھ میں ایجوکیشن مینیجمنٹ کی تنظیموں کے ساتھ ہم نے جو کام کیا ہے، اس میں ریاضی اور سائنس کے مضامین میں ٹیکنالوجی کے مؤثر نفاذ کے ثمرات سامنے آئے ہیں۔
پڑھیے: ووٹ دیا اب تعلیم دو
ہمارے ایک پارٹنر اسکول میں جس نے ہمارا قومی نصاب کے ساتھ ہم آہنگ تعلیمی پروگرام اپنایا (انگلش اور اردو دونوں زبانوں میں)، اس میں زیادہ تر طلباء نے ایک سال کی ریاضیاتی قابلیت صرف 4 ماہ کے اندر حٓصل کر لی۔ یہ نتائج اس انقلابی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اس وقت ممکن ہے جب تعلیمی ٹیکنالوجی کو غور و خوض کے ساتھ نافذ کیا جائے۔
مگر ٹیکنالوجی ہر مرض کی دوا نہیں ہے۔ اس کے نفاذ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیمی سسٹم کے نفاذ، کے لیے اساتذہ کے انتخاب، ان کی تربیت، اسناد، اور احتیاط کے ساتھ تیار کیا گیا نفاذ کا نظام نہایت اہم ہیں۔ ایک دفعہ جب کمرہ جماعت میں اس کا نفاذ شروع ہو جائے تو طلباء کے جامع بنیادی جائزوں اور کورس میں آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسلسل ٹیسٹ کی ضرورت رہتی ہے۔ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ بچے اس موضوع میں مہارت حاصل کر لیں۔
کمرہ جماعت میں ٹیکنالوجی کے نفاذ کو وسیع پیمانے پر نافذ کرنے سے قبل اس کی پائلٹ ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے۔ ایک سال کا احتیاط سے چلایا گیا پائلٹ پروگرام، جس میں 30 پرائمری اسکول، ہر اسکول میں 200 بچے شامل ہوں، کامیابی کا ثبوت اور نفاذ میں اصلاحات کے لیے اہم سبق پیش کر سکتا ہے۔
ان 'اسمارٹ اسکولز' کے لیے ابتدائی کھیپ پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں سے آسانی سے منتخب کی جا سکتی ہے جبکہ مقصد فوری طور پر اس کامیابی کو دوسرے اسکولوں تک پھیلانا ہونا چاہیے۔ اس طرح کی حکمتِ عملی کا فائدہ یہ ہے کہ اس کا تجربہ کم قیمت پر کیا جا سکتا ہے، اور ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیمی نظام کا پاکستان میں وسیع پیمانے پر کامیابی کے ساتھ نفاذ کیا جا سکتا ہے۔
نئی حکومت کو چاہیے کہ کمرہ جماعت میں ٹیکنالوجی کے مؤثر نفاذ کے ساتھ تعلیمی اصلاحات لائے۔ اس کے بغیر تعلیم میں انقلاب کے وعدے ادھورے رہیں گے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 ستمبر 2018ء کو شائع ہوا۔