پولنگ کے لیے جبری ڈیوٹی اب ختم ہونی چاہیے
الیکشن کمیشن نے فوج کو 2018 کے عام انتخابات کے لیے قائم کیے گئے 85 ہزار 456 پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے لیے 9 ارب روپے جاری کیے تھے۔ یہ تقریباً ایک لاکھ 5 ہزار روپے فی پولنگ اسٹیشن بنتا ہے۔ فوج نے ہر پولنگ اسٹیشن پر دو فوجی اندر اور دو باہر تعینات کیے تھے۔ اس کے علاوہ اس نے پرنٹنگ مرحلے اور بیلٹ پیپرز کی ترسیل کے لیے بھی سیکیورٹی فراہم کی تھی۔ یہ دونوں اداروں کے درمیان موجود بندوبست تھا اور اس نے کام بھی کیا کیوں کہ کہیں سے بھی کوئی پریشان کن صورتحال سامنے نہیں آئی۔
مگر پولنگ کا مرحلہ سرکاری افسران کے زیرِ انتظام رہا جنہیں معمول کے مطابق محکمہ تعلیم سے لیا گیا تھا۔ ہر پولنگ اسٹیشن کی سربراہی ایک پریزائیڈنگ افسر (پی او) کے ہاتھ میں تھی جو کہ گریڈ 17 یا اس سے اوپر کا افسر تھا۔ پریزائیڈنگ افسر کے پاس اوسطاً 9 دیگر سرکاری افسران پر مشتمل اسٹاف تھا، جن میں 2 اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسران کے 3 گروپ اور 1 پولنگ افسر تھا تاکہ پولنگ اسٹیشن پر مختلف کام سرانجام دیے جا سکیں۔
پریزائیڈنگ افسران کو 6 ہزار روپے جبکہ باقی کے اسٹاف کو ساڑھے 4 ہزار روپے فی شخص دیے گئے تھے۔ اس سے فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً 46 ہزار 500 روپے ادا کیے گئے، یا پھر 8 لاکھ 71 ہزار افسران کو کُل 4 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے پولنگ کے منتظمین کو جو فی شخص ادائیگی کی، وہ پولنگ کی سیکورٹی نبھانے والوں کی بہ نسبت 6 سے 7 گنا کم تھی۔
پڑھیے: پولنگ کے دن اصل مسئلہ کہاں پیش آیا؟
پولنگ اسٹاف کے لیے الیکشن ڈیوٹی مشکل بھی ہوتی ہے اور اس پر کوئی تعریف، کوئی شکریہ نہیں ملتا۔ اس دفعہ اس کی شروعات پریزائیڈںگ افسران کے الیکشن کمیشن کی جانب سے منعقد کردہ 2 روزہ تربیت میں شرکت سے ہوئی۔ انہیں بعد میں ریٹرننگ افسران نے اپنے دفاتر میں بلایا جہاں نادرا حکام نے ان کے موبائل فونز میں آر ٹی ایس کی ایپلیکیشن انسٹال کی۔ پریزائیڈنگ افسران کو ایک بار مزید ریٹرننگ افسران کے دفاتر جانا پڑا تاکہ اپنی ذمہ داریاں دیانت داری اور عرق ریزی سے انجام دینے کا حلف اٹھایا جا سکے۔ ان دفاتر کے احاطے ایک وقت میں 300 لوگوں کے لیے نہیں تھے، اور ان میں سائے اور پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات بھی نہیں تھیں جن کی اس سخت موسم میں ضرورت تھی۔ چنانچہ حاضرین میں ہتک کا احساس پیدا ہوا۔
پریزائیڈنگ افسران پھر پولنگ سے ایک دن قبل ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں پولنگ کا سامان حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں لگے رہے۔ معمول کے مطابق انہیں یہ سب سامان سیکیورٹی کے ساتھ اپنے متعلقہ پولنگ اسٹیشن تک لانا تھا، اور وہاں پر رہنے کی کسی سہولت کے بغیر ہی رات گزارنی تھی۔
پولنگ کا سخت مرحلہ اگلے دن صبح 8 بجے شروع ہوا اور بغیر کسی وقفے کے 10 گھنٹے تک جاری رہا۔ انہیں کھانے اور چائے کے لیے اپنے انتظامات خود کرنے تھے کیوں کہ کسی سیاسی جماعت سے یہ قبول کرنے کا مقصد احسان اٹھانا تھا جس کا انکار کرنا ان پر لازم تھا۔
پولنگ کے اختتام پر ووٹوں کی گنتی، فارمز کی تیاری اور نتائج کے اعلان کا حساس مرحلہ شروع ہوا۔ اس میں 4 سے 6 گھنٹے لگے، جس کے بعد پولنگ اسٹاف نے پولنگ اسٹیشن کا پورا سامان اکھٹا کیا اور پھر سیکیورٹی کے ساتھ ریٹرننگ افسران کے دفاتر پہنچے، جہاں انہیں قطاروں میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا تاکہ سامان باقاعدہ طور پر واپس کیا جا سکے۔
یہ ان کی مشکلات کا اختتام تھا مگر انہیں اس ضمانت پر چھوڑا گیا کہ انہیں کسی بھی وقت پر کسی تفصیل کی تصدیق یا درستی کے لیے، یا پھر کسی تنازعے کی صورت میں الیکشن ٹریبونل کے سامنے بلایا جا سکتا ہے۔
پولنگ اہلکاروں کو اس طویل آزمائش کے لیے جو رقم ادا کی گئی، وہ ان کے اخراجات سے بھی کم تھی۔ اس ڈیوٹی کو 'پُر خطر' تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ اسٹاف ممبران کی جانب سے ذرا سے بھی ایکشن یا نان ایکشن کی وجہ سے تنازع پیدا ہو سکتا ہے اور ان کی ساکھ اور کریئرز پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
ہم افسران سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اتنے جھنجھٹ اور بے عزتی سے گزر کر ایک خطرناک ڈیوٹی ایمانداری اور جذبے سے پوری کریں گے، وہ بھی کسی قسم کے انعام یا تکریم کی توقع کے بغیر۔ چنانچہ یہ بات حیران کن نہیں کہ جیسے ہی ان کی تعیناتی کا مرحلہ شروع ہونے لگتا ہے تو یہ لوگ فہرستوں سے اپنا نام نکلوانے کی مہم شروع کر دیتے ہیں مگر صرف چند خوش قسمت ہی اس میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
پڑھیے: بلوچستان میں حلقہ بندیوں سے متعلق خوش آئند تبدیلیاں
چوں کہ پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے اس لیے اہلکاروں کی بھی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ 2002 کے انتخابات میں 64 ہزار 475 پولنگ اسٹیشنوں پر 5 لاکھ 68 ہزار 120 اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن کو اب مطلوبہ تعداد میں اہلکاروں کی تعیناتی میں مشکل پیش آتی ہے، چنانچہ یہ اعلیٰ ترین بیوروکریسی کو تحرک دینے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجبور کرتے ہیں کہ اسٹاف کو نا چاہتے ہوئے بھی تربیتی ورکشاپس میں بھیجا جائے اور ان سے پولنگ ڈیوٹی کروائی جائے۔
سرکاری اہلکاروں سے بہترین کارکردگی پیش کروانے اور معیاری انتخابات کروانے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ پولنگ کے تمام مرحلوں کی انتظام کاری پر اچھی طرح نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم اور بنیادی تبدیلی جو آنی چاہیے وہ جبر اور خوف کو فوائد اور انعامات سے تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر ہمیں معیاری انتخابات چاہیئں، تو ہمیں منتظمین کو کم از کم اتنا تو دینا ہوگا جتنا کہ ہم انہیں سیکیورٹی فراہم کرنے والوں کو دے رہے ہیں۔
بھلے ہی عام انتخابات ہر 5 سال کے بعد ہوتے ہیں مگر ہمارے پاس اب بھی بلدیاتی انتخٓبات بھی ہوتے ہیں؛ اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت ضمنی انتخابات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح محکمہ تعلیم کا انتخابی ڈیوٹی کرنا تقریباً مستقل مرحلہ ہے۔ الیکشن کمیشن کو محکمہ تعلیم کے ساتھ ایک باقاعدہ بندوبست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ محکمہ تعلیم اس کام کو قومی ذمہ داری سمجھے اور جب بھی ضرورت ہو، شراکت کے لیے تیار رہے۔
دوسرا اہم پہلو الیکشن اسٹاف کی تربیت سے متعلق ہے۔ انتخابات دھوکے کی حد تک سادہ نظر آتے ہیں، مگر معیاری انتظام کاری کے لیے متعلقہ قواعد و ضوابط کی مکمل معلومات اور انہیں سمجھ پانے کی صلاحیت موجود ہونی چاہیے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ الیکشن اسٹاف کو جو مختصر ٹریننگ فراہم کی جاتی ہے، وہ اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی۔
الیکشن کمیشن کو اپنے تربیتی ماڈل پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔ عارضی، ایک دفعہ کے انتظامات کے بجائے اسے اپنے تربیتی پروگرام کو باقاعدہ حیثیت دینی چاہیے جس کے لیے اوپن یونیورسٹیوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اوپن یونیورسٹی اور/یا ورچوئل یونیورسٹی آسانی سے پولنگ مرحلوں پر ایک شارٹ کورس تیار کر سکتی ہیں، نہ صرف پولنگ اسٹاف کے لیے، بلکہ سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کے لیے بھی۔ محکمہ تعلیم اس کورس کو گریڈ 17 کے افسران کی ملازمت کا ضروری حصہ بنا سکتا ہے اور سرٹیفائیڈ پریزائیڈنگ افسران کی ایک کھیپ تیار رہ سکتی ہے۔
ہماری انتخابی تاریخ نہایت پریشان کن رہی ہے۔ اس کی وجہ سے انتخابات کی انتظام کاری میں موجود دیرینہ چیلینجز کے ادارہ جاتی حل نہیں نکل سکے ہیں۔ ایڈ ہاک بنیادوں پر حل اور روایتی ماڈلز میں معمولی ردوبدل نے عوام کی امیدیں پورا کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے، اور یہی ہمارے انتخابی مسائل کی بنیاد ہیں۔ اب وقت ہے کہ مستقبل میں بہتر نتائج کے لیے طویل مدتی ادارہ جاتی حکمتِ عملی اپنائی جائے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 31 اگست 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں