پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن کی درخواست ضمانت ایک مرتبہ پھر مسترد
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کرپشن کیس میں گرفتار پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما شرجیل انعام میمن کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔
نیب پراسکیوٹر منصف جان نے عدالت کو بتایا کہ شرجیل انعام میمن پر دائر کرپشن ریفرنس احتساب عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اس موقع پر عدالت نے ملزم کے وکیل سے استفسار کیا کہ ملزم شرجیل میمن اس وقت کہاں ہیں۔
جس پر نیب پراسکیوٹر نے بتایا کہ شرجیل میمن مئی سے ضیاء الدین ہسپتال میں زیر علاج ہیں جیسے سب جیل کا درجہ دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: شرجیل میمن کی میڈیکل رپورٹ میں تضاد ہونے کا انکشاف
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے شرجیل انعام میمن کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔
انہوں نے کہا کہ آغا خان ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق شرجیل میمن کو کوئی خاص مرض نہیں اور ہسپتال کی رپورٹ میں ملزم کو فزیو تھراپی کروانے کی تجویز دی تھی۔
اس سے قبل 2 جنوری کو سپریم کورٹ نے پی پی پی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن سمیت دیگر ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں مسترد کردی تھی، جس کے بعد نجی اشتہاری کمپنی کے مالک انعام اکبر اور سندھ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر یوسف کبوڑو کو نیب نے عدالت کے احاطے سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شرجیل انعام میمن کی درخواست ضمانت مسترد
یاد رہے کہ گزشتہ برس 23 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی محکمہ اطلاعات میں 5 ارب 76 کروڑ روپے کی مبینہ بدعنوانی کے معاملے پر شرجیل انعام میمن سمیت 13 ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی جس کے بعد نیب کی ٹیم نے انہیں عدالت سے باہر آتے ہی گرفتار کرلیا تھا۔
اس کے علاوہ 14 مئی 2018 کو سندھ ہائی کورٹ نے پی پی پی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن کی ضمانت کی درخواست ایک مرتبہ پھر مسترد کردی تھی۔
سندھ کے محکمہ اطلاعات میں کرپشن — کب کیا ہوا؟
خیال رہے کہ سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، اس وقت کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات، ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اور دیگر پر 15-2013 کے دوران سرکاری رقم میں 5 ارب 76 کروڑ روپے کی خرد برد کے الزام میں تحقیقات جاری ہیں۔
سابق صوبائی وزیر پر الزام ہے کہ انہوں نے مذکورہ رقم صوبائی حکومت کی جانب سے آگاہی مہم کے لیے الیکٹرونک میڈیا کو دیے جانے والے اشتہارات کی مد میں کی جانے والی کرپشن کے دوران خرد برد کی۔
شرجیل انعام میمن نے 2015 میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی تھی اور تقریباً 2 سال تک بیرون ملک رہنے کے بعد جب وہ گزشتہ برس 18 اور 19 مارچ کی درمیانی شب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے، تو انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کے اہلکاروں نے ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔
تاہم 2 گھنٹے پوچھ گچھ کرنے اور ضمانتی کاغذات دیکھنے کے بعد نیب راولپنڈی کے اہلکاروں شرجیل میمن کو رہا کردیا تھا۔
گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 20 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض شرجیل میمن کی حفاظتی درخواست ضمانت منظور کی تھی۔
23 اکتوبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے نیب کی اپیل پر شرجیل انعام میمن سمیت دیگر ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی جس کے بعد نیب کی ٹیم نے انھیں عدالت سے باہر آتے ہی گرفتار کرلیا تھا۔
بعدِ ازاں سابق صوبائی وزیر سمیت 12 ملزمان کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھی جنہیں چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مسترد کردیا تھا۔
25 نومبر 2017 کو شرجیل میمن نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
4 دسمبر 2017 کو ہونے والی سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کردی گئی تھی جس میں ممکنہ طور پر ان کے اور دیگر شریک ملزمان کے خلاف فردِ جرم عائد کی جانی تھی۔
سماعت سے قبل شرجیل میمن کے وکیل کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ سابق صوبائی وزیر کی طبیعت نا ساز ہے اور انہیں طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔
13 دسمبر 2017 کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے شرجیل انعام میمن کی طبی سہولیات کی تشخیص کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے اس میں نیورولوجسٹ، نیورو فیزیشنز اور دیگر ڈاکٹروں کو شامل کرنے کی ہدایت جاری کی تھی جبکہ سیکریٹری صحت کو بھی اس حوالے سے جواب جمع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
23 دسمبر 2017 کو شرجیل میمن اور دیگر ملزمان کی جانب سے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نیب حکام نے اپنی رپورٹ میں ملزمان کی گرفتاری سے متعلق عدالت کو گمراہ کیا تاہم ان کی گرفتاری کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔