شہری شجرکاری: کیا حکومت اتنی عجلت میں یہ کام کرپائے گی؟
پاکستان تحریکِ انصاف کی نئی نویلی حکومت کی ترجیحات میں ماحول اور خصوصاً شجرکاری سرِفہرست نظر آتی ہے جو تحفظِ ماحول کے حوالے سے کام کرنے والے لوگوں کے لیے بہت خوش کن بات ہے۔ انتخابات سے پہلے اپنے 100 دن کے پروگرام میں تحریکِ انصاف نے اعلان کیا تھا کہ وہ ملک بھر میں 10 ارب درخت لگائے گی۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں جنگلات کا رقبہ 5 فیصد سے بھی کم ہے، وہاں یہ اعلان انتہائی اہم سمجھا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس پر من و عن عمل درآمد ہوسکے تو۔ حکومت کے قیام کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے ان میں سے بھی ایک فیصلہ شہروں میں درخت لگانے کا تھا۔ اس حوالے سے 2 ستمبر سے لے کر 6 ستمبر تک ملک بھر میں ایک باقاعدہ مہم چلائی جائے گی اور پاکستان کے تمام شہروں میں شجرکاری کی جائے گی۔
ماضی میں پاکستان کے شہروں میں اچھی خاصی تعداد میں درخت پائے جاتے تھے لیکن بے ہنگم تعمیرات اور ٹمبر مافیا نے شہروں کو درختوں سے خالی کردیا ہے۔ اب دوبارہ سے شہروں میں درخت لگانے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس رحجان میں زیادہ تیزی کراچی میں 2015ء میں پڑنے والی قیامت خیز گرمی کے بعد دیکھنے میں آئی اور لوگوں کو پہلی بار بدلتے موسموں کی قیامت خیزی کا احساس ہوا۔
لوگوں نے جانا کہ اب بقاء اسی میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر درجہءِ حرارت کو قابو کیا جائے۔ شہروں اور خصوصاً کراچی میں شجرکاری کی سرگرمیاں سال بھر جاری رہتی ہیں۔ بعض جوشیلے لوگ اس بات کی پروا بھی نہیں کرتے کہ درخت لگانے کے کچھ خاص موسم ہوا کرتے ہیں۔
پڑھیے: خان صاحب، بس 10 ارب درخت لگانے کا وعدہ مت بھولیے گا
شہری شجر کاری کے حوالے سے 2 سال قبل چین کی حکومت کا یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ وہ اپنے ایک شہر لیوزوھو (Liuzhou) کے قریب دنیا کا ایک پہلا مکمل جنگلاتی شہر (Forest city) بنائے گی جو مکمل طور پر درخت، پودوں اور بیلوں سے ڈھکا ہوگا۔ چین کا کہنا ہے کہ اس طرح فضائی آلودگی اور درجہءِ حرارت میں اضافے کو قابو کرنے میں مدد ملے گی۔
اس شہر میں 30 ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش موجود ہوگی اور یہاں دفاتر، اسپتال اور اسکول وغیرہ بھی ہوں گے جو 100 انواع کے 40 ہزار درختوں اور 10 لاکھ پودوں سے ڈھکے ہوئے ہوں گے۔ یہ درخت اور پودے 10 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ اور 57 ٹن دیگر مادے جذب کرسکیں گے اور 900 ٹن آکسیجن فراہم کریں گے۔
یہ جنگلاتی شہر لیوزوھو ریل اور سڑکوں کے ذریعے منسلک ہوگا جہاں برقی توانائی سے کاریں چلائی جائیں گی۔ اس شہر میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شمسی اور جیو تھرمل ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ یہ شہر لیوزوھو میونسپلٹی کے اربن پلاننگ ڈپارٹمنٹ کے زیرِ انتظام تعمیر کیا جائے گا جس کا دعویٰ ہے کہ یہ درخت اور پودے نہ صرف فضائی آلودگی کو کم کریں گے بلکہ شور کو بھی جذب کریں گے اور ساتھ ہی یہ مختلف اقسام کے حیاتیاتی تنوع مثلا پرندے، کیڑے مکوڑے، جانور اور تتلیوں وغیرہ کا گھر بھی ہوں گے۔
اس وقت دنیا کی نصف آبادی شہروں میں مقیم ہے اور 2050ء تک دنیا کی شہری آبادی 70 فیصد ہوجائے گی۔ اگرچہ یہ شہر کرہ ارض کے صرف تہائی حصے پر موجود ہیں لیکن یہ 78 فیصد توانائی استعمال کرتے ہیں اور 60 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں جو بدلتے موسموں اور زمین پر درجہءِ حرارت بڑھنے کا ایک اہم سبب ہے۔
پڑھیے: شجرکاری کے موسم میں درخت لگانے کا درست طریقہ سیکھیں
شہروں کی اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے نئی حکومت کا شہروں میں شجر کاری کا اعلان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کیا نئی حکومت اس مقصد میں کامیاب ہوسکتی ہے؟ اس جواب کی کھوج ہمیں کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمنٹل اسٹڈیزسے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال شمس کے پاس لے گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’حکومت چاہے تو یہ کام کرسکتی ہے لیکن یہ یاد رہے کہ شہری شجرکاری یا اربن فارسٹری پوری ایک سائنس ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے زمین کا تجزیہ (Soil Profile) ضروری ہے کہ کس علاقے کی زمین کیسی ہے، اس کے اجزاء کیا ہیں اور وہاں کون سے درخت بہتر اگ سکتے ہیں۔
’مثلاً اگر ہم کراچی کی بات کریں تو کراچی بہت بڑا شہر ہے اس میں مختلف جغرافیائی زون موجود ہیں۔ کہیں ساحلی علاقے ہیں تو کہیں پہاڑ، کہیں میدان، ہر زون کے لیے درخت اور پودے مخصوص ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں لہٰذا پودوں کا انتخاب ایک مخصوص مہارت مانگتا ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ اس حوالے سے ایک چھوٹے پیمانے پر کم مدت میں کوئی تحقیق کرالی جاتی۔ ایک مشاورتی پینل بنایا جاتا جس میں ماہرِ ماحولیات، نباتات، جیالوجسٹ وغیرہ شامل ہوتے، ان کی ماہرانہ رائے میں یہ کام انجام دیا جاتا تو بہتر نتائج برآمد ہوتے۔‘
ہمیں ڈاکٹر ظفر اقبال شمس سے پورا اتفاق ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اکثر حکومتیں ایسے اقدامات بنا کسی تحقیق اور تجزیے کے جلد بازی میں کر گزرتی ہیں جن کے نتائج بہتر برآمد نہیں ہوتے۔ نچلی سطح پر موجود شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نمائشی اقدامات سے وقتی طور پر اپنی کارکردگی پر واہ واہ ضرور سمیٹ لیتے ہیں لیکن ایسے اقدامات کے دور رس نتائج نہیں نکلتے۔ ہمارے سامنے یوکلپٹس کی مثال موجود ہے جسے بعد میں کاٹنا پڑگیا۔ حالیہ مثال کونو کارپس کی ہے۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے یہ پودا کراچی میں لگایا گیا، یہ بدیسی پودا کراچی کے ماحول کے لیے ہرگز موزوں نہیں تھا۔ اب اس کی کٹائی پر پیسہ خرچ کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں اربن فارسٹری سے لوگ واقف نہیں ہے۔ اس پر شمالی امریکا میں بہت کام ہوا، پھر لندن میں، حتٰی کہ انڈیا کے 2 ایک شہروں مثلاً بنگلور وغیرہ میں بھی کام ہوا ہے۔ شہروں کی شجرکاری میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اسے ایک سائنس کے طور پر لیا جاتا ہے۔ درخت لگاتے ہوئے اس کی جڑوں تک پر تحقیق کی جاتی ہے کہ اس درخت کی جڑیں کہاں تک پھیلیں گی اور قریب ترین عمارت کہاں ہے وغیرہ وغیرہ۔
درختوں کا انتخاب کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ وہاں زیرِ زمین کوئی پائپ لائن تو نہیں گزررہی، اگر فضاء میں کوئی ہائی ٹینشن لائن گزررہی ہے تو چھوٹے قد کا درخت لگایا جاتا ہے۔ سڑک کے کنارے ایسے درخت لگائے جاتے ہیں جن کا سایہ سیاہ کولتار کی سڑک کو پوری طرح اپنے سائے سے ڈھک دے تاکہ وہ حرارت جذب نہ کرسکے۔ عمارتوں کے کنکریٹ کے ڈھانچوں کو سایہ دار درختوں سے ڈھک دیا جائے تبھی بڑھتے ہوئے درجہءِ حرارت سے نمٹا جاسکتا ہے۔
پڑھیے: ماحول دوست مینگرووز سے ہماری دشمنی کیوں؟
ساؤتھ پنجاب فارسٹ کمپنی لاہور کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر طاہر رشید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ، ’یہ بہت اچھا اقدام ہے کہ پہلی بار شہروں پر توجہ دی جارہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جنگلات کے شعبے میں شہری جنگلات کے حوالے سے کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہمارے شہروں کا ماحول بدلتے موسموں کی لپیٹ میں آکر غیر متوازن ہوچکا ہے۔ کراچی میں بڑھتا ہوا درجہءِ حرارت، لاہور میں سردیوں میں شدید دھند، کوئٹہ میں مٹی کے طوفان وغیرہ کو روکنے کا ایک طریقہ ان شہروں میں زیادہ سے زیادہ جنگل یا درخت اگانا بھی ہے۔‘
اگرچہ کام بہت اچھا ہے لیکن اتنی جلد بازی کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک حکمتِ عملی اور مکمل ہوم ورک کی ضرورت تھی۔ اس حوالے سے بہت سے چیلینجز بھی سامنے آئیں گے۔ 2 سے 4 دن کی مہم میں یہ کام نہیں ہوسکے گا۔ ہمیں ہرصورت میں مقامی درخت لگانے ہوں گے۔ اتنے پودوں کا ذخیرہ کہاں سے آئے گا؟ نرسریوں پر مقامی انواع کے کتنے پودے موجود ہوں گے؟ ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر بدیسی پودے مثلاً یوکلپٹس اور کونو کارپس ہی لگ جائیں۔ اس مہم میں محلے اور علاقے کے لوگوں کی شمولیت کی اشد ضرورت ہے جو درختوں کی دیکھ بھال کرسکیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ کچھ وقت لگا کر پورا ہوم ورک مکمل کیا جاتا اور شجرکاری کو موسم بہار تک مؤخر کردیا جاتا۔
اربن فارسٹری کے تجربے دنیا کے بڑے شہروں میں جاری ہیں۔ ماہرین کی گفتگو کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شہری شجر کاری کے حوالے سے 2 اہم باتیں مدِنظر رکھنا ضروری ہیں۔ ایک تو مقامی انواع لگانی چاہیے اور دوسرا کسی ایک نوع کو پورے شہر میں لگانا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اگر اس درخت کو کوئی بیماری لگ گئی تو پورے شہر کے درختوں کو بیماری لگ جائے گی۔
کراچی میں ایسے تجربات بار بار کیے گئے ہیں۔ 50ء کی دہائی میں ایوب خان نے دیوی کی شجرکاری کا تجربہ کیا تھا۔ 70ء کی دہائی میں بھٹو صاحب نے یوکلپٹس (سفیدہ) کا تجربہ کیا۔ یوکلپٹس یا سفیدہ زیرِ زمین پانی کو کھینچتا ہے لہٰذا ان درختوں کو کٹوانا پڑا۔ اسی طرح لیگنم کے درخت شاہراہِ فیصل پر لگائے گئے تھے جنہیں بعد میں کٹوادیا گیا۔ پھر مصطفی کمال نے اپنی نظامت کے دور میں کونو کارپس کا تجربہ کیا گیا، وقت نے اس تجربے کو بھی غلط ثابت کیا۔
پڑھیے: اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اب ایک بار پھر نئی حکومت نے شہروں کو سرسبز بنانے کے لیے کمر کس لی ہے تو ہماری نیک خواہشات بھی حکومت کے ساتھ ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ حکومت کے اس کام میں شہریوں کی شمولیت کے بغیر مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
اب درخت لگا کر اس کے ساتھ تصویر کھنچوا کر بھول جانے کی روایت بدلنی ہوگی۔ حکومت ہر ایک درخت کی حفاظت خود نہیں کرسکتی۔ یہ عام لوگ ہی ہوں گے جو اس پودے کا درخت بننے تک دھیان رکھیں گے لیکن ضروری ہے کہ ان کی اس سارے عمل میں شراکت داری ہو۔
ہمیں ڈر ہے کہ حکومت کے تمام اخلاص اور کثیر سرمایہ کاری کے باوجود اتنی جلدبازی میں وہ نتائج برآمد نہیں ہوسکیں گے جس کی حکومت کو توقع ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں