• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی کے بورڈ آف گورنر میں شہباز شریف کی شمولیت کا نوٹس لے لیا

شائع August 25, 2018 اپ ڈیٹ December 2, 2018

لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) کے بورڈ آف گورنر (بی اوجی) میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دیگر کی تقرری کا نوٹس لے لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس عطا عمر بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں پی کے ایل آئی میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور فنڈز میں خورد برد پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی۔

اس موقع پر عدالتی کمیشن کے کوکب جمال زبیری نے انسٹِٹیوٹ کی فارنزک آڈٹ رپورٹ جمع کروائی اور ساتھ ہی ویڈیو بھی پیش کی جس میں عمارت کی خستہ حالی ، گندگی، چھتوں سے ٹپکتا پانی دکھایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا پی کے ایل آئی میں 20 ارب اخراجات کا فرانزک آڈٹ کا حکم

ان کا کہنا تھا کہ ادارے کے فنڈز میں خورد برد اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا، انہوں نے بتایا کہ یہ منصوبہ دسمبر 2017 میں مکمل ہوجانا تھا لیکن 20 ارب روپے خرچ ہونے کے بعد بھی تاحال پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا۔

ان کا مزید کہنا تھاکہ ابتدائی طور پر اس منصوبے کے لیے 12 ارب 70 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ 53 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس کے علم میں یہ بات آئی کہ پی کے ایل آئی منصوبے کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی سے منظوری بھی نہیں لی گئی۔

مزید پڑھیں: نیب کی نواز شریف، شہباز شریف کے خلاف ریفرنس کی منظوری

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی کے ایل آئی میں اربوں روپوں کی بندر بانٹ کی گئی تمام امور میں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا، ایسا لگتا ہے سلطان جو کرنا چاہتا تھا اس نے کیا۔

اس موقع پر عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ پی کے ایل آئی کے قانون میں دیکھا گیاہے کہ یہاں کوئی قانون نہیں، حکومت نے اپنے اختیارات نجی کمپنی کو کیسے دے دیے؟

اس کے ساتھ عدالت میں انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ اتھارٹی پنجاب کے سربراہ کی لاکھوں روپے کی اضافی تنخواہ کا معاملہ بھی زیر غورآیا.

یہ بھی پڑھیں: آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: شہباز شریف نیب میں طلب

اس موقع پر چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ شیر دل مجاہد بحیثیت ڈپٹی کمشنر 70ہزار روپے تنخواہ حاصل کررہے تھے اور آئی ڈی اے پی کا چیف ایگزیکٹو افسر بننے کے بعد انہیں ملنے والی تنخواہ یک دم 8 لاکھ 50 ہزارتک جاپہنچی، اس کے علاوہ ان کے بھائی بھی بیوروکریٹ اور سابق حکومت کے منظورِ نظر تھے۔

چیف جسٹس نے انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پنجاب (آئی ڈی اےپی) کے چیف ایگزیکٹو افسر مجاہد شیر دل سے استفسار کیا کہ اتنے اعلیٰ عہدے پر تعینات ہونے کے لیے آپ کی قابلیت کیا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے والد نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری رہے ہیں ، آپ کے والد کی وجہ سے آپ کو اور آپ کے بھائی کو نوازا گیا۔

مزید پڑھیں: کرپشن کیسز میں ملوث ہونے کا الزام، شہباز شریف نیب میں پیش

بعدازاں عدالت نے آئندہ سماعت میں پنجاب پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیئرمین کو پی کے ایل آئی میں مبینہ مالیاتی بے قاعدگیوں پر تفصیلی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت مؤخر کردی گئی۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024