• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

قومی اسمبلی کی گیلری میں بیٹھ کر میں نے کیا کچھ دیکھا!

شائع August 18, 2018

پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی نے ملک کے 22ویں وزیراعظم کا انتخاب کرلیا ہے اور آج عمران خان وزارتِ عظمیٰ کا حلف بھی اٹھا چکے ہیں۔

جب گزشتہ روز اسمبلی کی کارروائی جاری تھی تو میں نے سارے مناظر اسمبلی میں ہی بیٹھ کر دیکھیں اور نئے نئے اسپیکر منتخب ہونے والے اسد قیصر پہلے دن ہی انتہائی بے بس نظر آئے۔ مہمانوں کی گیلری سے لوگ مسلسل نعرے لگاتے رہے تھے لیکن اسپیکر انہیں تنبیہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے اور حقیقت یہ ہے کہ ماضی قریب کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہورہا تھا۔

پارلیمانی روایات کے مطابق اسپیکر وزیرِاعظم کے انتخاب میں کامیاب امیدوار کا اعلان کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں قائدِ ایوان کی نشست سونپی جاتی ہے۔ اسپیکر کے اعلان کے ساتھ ہی ایوان میں ڈیسک بجنے لگتے ہیں اور نعرے بازی بھی ہوتی ہے، لیکن اس بار یہ سب ہوتا، اس سے پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کے ارکان اپنے قائد کی تصاویر کے ساتھ اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اسپیکر روسٹرم اور قائد ایوان کی نشست کے سامنے زبردست نعرے بازی شروع کردی۔

عمران خان اپنی نشست پر مسکراتے رہے، لیکن نعرے کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی رہے۔ اسپیکر نے معاملات کو قابو کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی سننے کو تیار نہ تھا، جس کے سبب اجلاس 15 منٹ کے لیے موخر کردیا گیا۔

پارلیمنٹ مچھلی بازار بنا رہا
پارلیمنٹ مچھلی بازار بنا رہا

عمران خان اپنی نشست پر مسکراتے رہے
عمران خان اپنی نشست پر مسکراتے رہے

پاکستان کی قومی اسمبلی ایوان زیریں ہونے کے باوجود ایوان بالا یعنی سینیٹ سے اس لیے برتر ہے کیونکہ یہ وزیرِاعظم کا انتخاب کرتی ہے اور فنانس بل کی منظوری دیتی ہے۔ اس قومی اسمبلی میں جب بھی وزیرِاعظم کا انتخاب ہوا تو پہلا دن ہمیشہ ہی اچھا ہوتا ہے۔ تقاریر ہوتی ہیں، تنقید ہوتی ہے، اکثر و بیشتر یہ سلسلہ ہنی مون پیرڈ تک چلتا ہے، جسے پہلے 100 دن کہتے ہیں۔

پڑھیے: انتخابی دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن بنایا جائے، شہباز شریف

لیکن چونکہ مسلم لیگ (ن) اپنی پوری بربادی کا ذمہ دار عمران خان کو سمجھتی ہے اسی لیے اس جماعت نے مخالفت سے زیادہ دشمنی جیسا کردار نبھایا ہے۔ اب اسے اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ جس دن نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں اڈیالہ جیل سے عدالت لے جایا جارہا تھا، اسی دن عمران خان قومی اسمبلی میں ایک بڑی جماعت کے سربراہ کے طور پر حلف رہے تھے۔

(ن) لیگ کے لیے ایک جھٹکا یہ بھی ہے کہ اسے ایک کھلاڑی سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے جسے وہ ایک ضدی کرکٹر سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی تھی۔ آج بھی واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ میاں برادران نے جتنی سرمایہ کاری آصف زرداری اور عمران خان کو بدنام کرنے کے لیے اتنی تو اپنی جماعت پر بھی نہیں کی۔

شہباز شریف کا قومی اسمبلی سے خظاب
شہباز شریف کا قومی اسمبلی سے خظاب

مجھے یاد ہے 1999ء اکتوبر کے بعد مئی 2013ء کے آخری ایّام میں جب نواز شریف پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر ایک سے داخل ہورہے تھے تو سیکیورٹی کے حصار میں ہونے کے باوجود لوگوں کے شدید رش کے سبب انہیں بھی کچھ دھکے لگے تھے۔ اس دن لگ رہا تھا کہ نواز شریف پرویز مشرف کو شکست دے کر واپس اسی وزیر اعظم ہاؤس جارہے ہیں جہاں سے انہیں مشرف کے حکم پر باہر نکال دیا گیا تھا۔

لیکن 5 سال میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

قومی اسمبلی کے ایوان اور گیلریوں میں موجود مہمانوں اور اس عمارت سے باہر ملک بھر کے لوگوں کو عمران خان کی تقریر کا شدت سے انتظار تھا، لیکن مسلم لیگ (ن) نے جو کچھ کیا اس نے سارے منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا۔ سچ پوچھیں تو قومی اسمبلی میں تقاریر صرف 2 ہی ہوئی تھیں ایک بلاول بھٹو زرداری کی اور دوسری اختر مینگل کی، باقی عمران خان اور شہباز شریف کی تقاریر حریفوں کے نعروں میں کہیں دب گئیں اور اچھا تاثر نہ دے سکیں۔

پڑھیے: سب سے پہلے کڑا احتساب کریں گے، عمران خان

عمران خان جب قائدِ ایوان منتخب ہوئے تو انہیں عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کے مطابق پالیسی خطاب کرنا تھا، لیکن لیگی ارکان کی شدید نعرے بازی اور احتجاج کے نتیجے میں عمران خان کے ہاتھ سے صبر کا دامن نکل گیا، جو غالباً مسلم لیگ (ن) کا اصل مقصد بھی تھا۔ نتیجتاً بلاول نے میلہ لوٹا اور اختر مینگل بلوچستان میں ظلم و ستم اور درد کی تصویر ایوان کے سامنے پیش کی جبکہ شہباز شریف کی تقریر کا حال عمران خان جیسا ہی رہا۔

عمران خان قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں— تصویر بشکریہ اے پی پی
عمران خان قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں— تصویر بشکریہ اے پی پی

عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بھی قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے سربراہ کے طور پر ہی خطاب کیا۔ انہوں نے شہباز شریف کو پیش کش کی کہ وہ جتنے چاہیں حلقے کھلوائیں ان کی حکومت اس سلسلے میں مدد کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عام انتخابات میں مدد کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ہمیں جتوانا چاہتی تو ہم پنجاب کے 40 سے زائد حلقوں میں ہمارے امیدوار 3 ہزار سے کم ووٹوں سے نہ ہارتے۔

انہوں نے شہباز شریف کو پیش کش کی کہ اگر وہ ڈی چوک پر دھرنا چاہیں تو اس کے لیے کنٹنیر اور کھانا وہ خود فراہم کریں گے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کسی ڈاکو کو کوئی این آر او نہیں ملے گا، یہ بات انہوں نے جان بوجھ کر اس لیے کی کیونکہ اسلام آباد کے مختلف حلقوں میں یہ ذکر عام ہے کہ نواز شریف کو کہا گیا ہے کہ آپ جلد جیل سے باہر ہوں گے۔

شہباز شریف جو عمران خان کے مدِمقابل تھے، روایات کے مطابق جب انہوں نے تقریر شروع کی تو تحریکِ انصاف کے اراکین اسمبلی نے ان کا گھیراؤ کرلیا اور مسلسل نعرے بازی کرتے رہے اور ان کی تقریر بھی سنی ان سنی ہوگئی۔ انہوں نے عمران خان کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اس پارلیمنٹ پر لعنت نہیں بھیجیں گے۔

پڑھیے: بلاول بھٹو زرداری کے قومی اسمبلی کے خطاب سے سب متاثر

شہباز شریف نے میاں نواز شیرف کے کام گنوائے اور مریم نواز کا بھی ذکر کیا۔ اسپیکر کے مسلسل روکنے کے باوجود وہ بولتے رہے جس کی وجہ سے اسپیکر کو ان کا مائیک بند کرنا پڑا۔

عمران خان اور شہباز شریف کے خطابات کے بعد بالآخر شور تھم گیا۔ بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے دوران پورے ایوان میں انتہائی خاموشی چھائی رہی اور اراکین پارلیمنٹ نے بڑے ہی غور و خوض کے ساتھ حرف بہ حرف چیئرمین پیپلزپارٹی کے قومی اسمبلی میں اولین خطاب کو سنا۔ بلاول کی تقریر میں بلاغت اور فصاحت کے ساتھ طنز کے نشتر بھی تھے۔

بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے عمران خان کو وزیرِاعظم بننے پر مبارک باد بھی دی اور کہا کہ آپ تحریک انصاف کے ہی نہیں اس ملک کے بھی وزیر اعظم ہیں، آپ ان لوگوں کے بھی وزیراعظم ہیں، جنہیں آپ نے زندہ لاشیں اور گدھے کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے جو 100 دن کا پروگرام دیا ہے ہم اس کے منتظر ہیں۔ بلاشبہ بلاول بھٹو کی تقریر نے مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے اراکین اور ان کی قیادت کو بھی متاثر کیا۔

اختر مینگل نے زیادتیوں اور ظلم و ستم کی داستان قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر سنائی۔ وہ اپنے ساتھ بلوچستان کے 5 ہزار 128 گمشدہ افراد کے ناموں کی فہرست بھی ساتھ لائے تھے، جو یہ کہہ کر اسپیکر اسد قیصر کے حوالے کی کہ اس فہرست کو قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

اختر مینگل پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے ہیں
اختر مینگل پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے ہیں

وہ اپنے ساتھ وفاق میں بلوچستان کی 18 ہزار اسامیاں خالی ہونے کی تفصیلات بھی لائے اور وہ بھی اسپیکر کے حوالے کی۔ انہوں نے کہا کہ ’چند ووٹ غائب ہونے پر اتنا احتجاج ہوتا ہے، جن کے بچے غائب ہوجائیں انہیں احتجاج کا حق بھی نہیں ملتا۔ کوئی ان ماؤں سے جاکر پوچھیں جن کے بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، کوئی ان بہنوں سے پوچھے جن کے بھائیوں کی عدم واپسی کے نتیجے میں ان کی ڈولیاں نہیں اٹھ سکیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے اپنے بھائی کی لاش ابھی تک نہیں ملی، میں اس کا الزام سی آئی اے پر لگاؤں یا موساد اور را پر!

انہوں نے ایک قومی ایجنڈے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ وہ عمران خان کو اس وقت مبارک باد دیں گے جب ان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے ہوں گے۔ اختر مینگل کی تقریر نے ایوان پر سکتہ طاری کردیا تھا، لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ بلاشبہ گزشتہ قومی اسمبلی میں اختر مینگل جیسی طاقتور سیاسی آواز موجود نہیں تھی جو مصلحت سے بالاتر ہوکر اپنی دھرتی اور بچوں کے لیے آواز اٹھاتی۔

قومی اسمبلی کے ابتدائی اجلاس کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آنے والے دنوں میں قومی اسمبلی سیاسی دھواں دار تقاریر اور احتجاج کا مرکز ہوگی۔ تحریک انصاف کے علاوہ باقی جماعتوں نے عام انتخابات میں ہونے والی مبیّنہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن وزیرِاعظم عمران خان اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے خدشات دور کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟ آنے والے دنوں میں اندازہ ہوجائے گا۔

عمران خان نے ہم پاکستانیوں کو سہانے خواب دکھائے ہیں۔ کرپشن اور ناانصافی سے آزاد ایک نئے پاکستان کا خواب، اگر اس کی تعبیر نہ ملی تو لوگوں کے خواب تو ریزہ ریزہ ہوں گے ہی مگر ایسا نہ کرنے کی وجہ سے نیند عمران خان کو بھی نہیں آئے گی!

عبدالرزاق کھٹی

عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024