کی کی چیلنج کرنے والی غیر ملکی سیاح ’ایوا‘ آخر ہے کون؟
ہمارا گروپ رضاکاروں کا ایک ایسا گروپ ہے جو کسی قسم کی مالی امداد کے بغیر پاکستان میں ماحولیات کے لیے کام کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں ماحولیاتی آفات آرہی ہیں، جنگل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس حوالے سے لوگوں کو زیادہ آگاہی حاصل نہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والی ممکنہ تباہ کاری کی طرف جاتی ہی نہیں۔
ہمارے اس گروپ میں مختلف پروفیشن سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں اور ہم یہ چاہتے تھے کہ ایک ایسی کمیونیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جو درخت لگانے کا کام کرے اور ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
پھر ہم نے دیکھا کہ ہمارے سیاحتی مقامات پر بھی ماحولیات کو بہتر رکھنے کی ضرورت ہے، یہی نہیں بلکہ وہاں کے مقامی افراد کی حالات بھی پسماندہ ہیں اور انہیں معاشی طور پر بھی بہتر کرنا ہے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں سیاحت کو گزشتہ چند برسوں سے فروغ حاصل ہوا ہے اور ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اور خیبرپختونخوا میں سیاحتی مقامات کے مقامی لوگ کافی غریب ہیں لہٰذا ہم نے سوچا کہ ہمیں اس حوالے سے کچھ کرنا چاہیے۔
ہم ملک کے ان حسین حصوں میں درخت لگانے اور مقامی لوگوں کے لیے بنیادی صحت و تعلیم میں ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ مقامی سیاحوں کو صفائی و سبزے کے حوالے سے آگاہی دینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ پایا گیا ہے کہ اکثر سیاح شمالی علاقہ جات اور کشمیر کے ان خوبصورت مقامات پر آتے ہیں اور گندگی اور کوڑا کرکٹ پھیلادیتے ہیں جس کی وجہ سے بتدریج گندگی میں اضافہ ہورہا ہے۔
لیکن اس گندگی کو روکنے کے لیے سیاحت کو تو نہیں روکا جاسکتا کیونکہ ان علاقوں اور یہاں کے رہنے والوں کے لیے سیاحت تو انتہائی ضروری ہے بلکہ جتنے زیادہ سیاح یہاں کا رخ کریں گے اتنی زیادہ مقامی لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی۔
چنانچہ ہم نے سیاحت کو فروغ دینے کے تناظر میں ایوا سے رابطہ کیا۔ ایوا کا تعلق پولینڈ سے ہے اور ان کی 3 ماہ قبل پاکستان آمد ہوئی تھی۔ وہ منگولیا سے ہوتی ہوئیں پاکستان آئیں۔ ہمارا منصوبہ تھا کہ وہ اکیلے ہنزہ سے کراچی تک سفر کریں اور یوں یورپی سیاحوں کو یہ پیغام بھی دیا جائے کہ پاکستان سیاحت کے حوالے سے محفوظ ملک ہے اور یہاں کوئی بھی آزاد فضا میں پاکستان کے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ انسٹاگرام پر پاکستان کے حوالے سے انہوں نے خصوصی ویڈیو شئیر کی ہے۔
ہم یہ بھی پیغام دینا چاہتے تھے کہ پاکستان ایک ملنسار اور مہمان واز قوم ہے۔
ایوا بنیادی طور پر انسٹا بلاگر ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد انہیں فالو کرتے ہیں۔ ایوا پاکستان کا ایک آزاد، لبرل، کثیرالثقافتی چہرہ دکھا رہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سیاح یہاں آئیں۔ ہمارا مقصد یہی ہے کہ دیس اور بدیس کے سیاحوں کو صاف ستھری اور سبز سیاحت کی آگاہی پھیلائیں اور یہ مودبانہ پیغام دے سکیں کہ برائے کرم وہاں جاکر نہ گندگی پھیلائیں اور نہ پلاسٹک کا استعمال کریں۔
اور ایوا ہمارا اس مقصد میں ساتھ دے رہی ہیں۔
دراصل سیاحت کی شوقین پولینڈ سے تعلق رکھنے والی ایوا خود بھی ماحول دوست انسٹا پوسٹ کرتی رہتی ہیں، لہٰذا ہم نے جب ایوا کو اپنے گروپ کے مقاصد اور وژن کے بارے میں بتایا تو انہوں نے بھرپور طریقے سے ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی۔ ویسے تو ہم اپنے گروپ میں صرف پاکستانیوں کو ہی ممبرشپ دیتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ ہمارا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں۔
دنیا میں کئی جگہوں پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان میں خانہ جنگی چل رہی ہے، خونزیزی ہے، امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں، لہٰذا ہم نے یہ سوچ لیا تھا کہ اس تاثر کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی اور ایوا کی مدد سے یہ کام بہت اچھے طریقے سے جاری ہے۔
ایوا یہاں آنے سے قبل پاکستان کو ایک غیر محفوظ زمین تصور کرتی تھیں، انہیں لگتا تھا کہ پاکستان انتہائی تنگ ذہن لوگوں کا ملک ہے اور یہاں صرف جنگ کی تباہ حالی جابجا بکھری ہوگی مگر ان کے لیے پاکستان کا تصور ہنزہ سے کراچی کی اس سیر سے یکسر تبدیل ہو رہا ہے۔ ایوا نے پاکستانیوں کے لیے خاص پیغام بھی دیا ہے۔
ایوا یہ سفر ہمارے ساتھ تو نہیں کر رہیں البتہ وہ لوگوں تک وہی پیغام پہنچا رہی ہیں جو ہمارے گروپ کا ہی پیغام ہے: کہ پاکستان ایک کثیرالثقافت، صبر و تحمل پر مبنی، ملن سار اور پرامن معاشرہ ہے۔
کی کی چیلنج والا معاملہ کیسے ہوا؟
ایوا کی وائرل ہونے والی ویڈیو کے پیچھے اس کا اپنا دماغ نہیں، بلکہ اسے یہ آئیڈیا پیش کیا گیا تھا۔ اس آئیڈیا کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایسا کرنے سے پاکستان کا سوفٹ امیج اجاگر ہوگا اور پاکستان میں غیر ملکیوں کی حفاظت کے حوالے سے بہت ہی مثبت پیغام جاسکے گا۔
اس حوالے سے پی آئی اے کے عملے نے حمایت کی، بلکہ یہ تو ہر محب وطن پاکستانی چاہتا تھا کہ پاکستان کا ایک مثبت تاثر دنیا تک پہنچے اور سیاح پاکستان آئیں اور سیاحت کو فروغ حاصل ہو کیونکہ غیر ملکی سیاح آئیں گے تو اس صنعت کو فائدہ ملے گا۔
کی کی چیلنج کے حوالے سے ایوا نے خود بھی بات کی ہے۔
یہ ویڈیو گڈ ول کے طور پر بنائی گئی اور جلد ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگوں کی تنگ نظری کی وجہ سے اس وڈیو کو منفی رنگ دے دیا گیا جو انتہائی افسوس کی بات ہے۔
اب سننے میں آیا ہے کہ چیئرمین نیب نے بھی اس ویڈیو کا نوٹس لے لیا اور ایوا اس پوری صورتحال سے تھوڑا پریشان بھی ہوئیں اور انہوں نے پوچھا کہ کیا کسی قسم کی کارروائی کی جائے گی؟
وہ کافی ڈری ہوئی تھیں اور ہمیں بتایا کہ انہوں نے یہ ویڈیو صرف اور صرف خیر سگالی کے جذبے کے طور پر بنائی ہے، اس کے علاوہ ان کا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ اس شور کے بعد پی آئی اے کا عملہ بھی خاصا پریشان ہوگیا ہے حالانکہ اس ویڈیو کی اجازت دینے کا مقصد تو صرف ادارے کی تشہیر اور بہتری تھا۔ اب یہ ظاہر سی بات ہے کہ جو ادارہ خسارے کا شکار ہوگا وہ خود کو اٹھانے کے لیے کسی نہ کسی طور پر کوشش تو کرے گا، بس یہ ویڈیو اسی کوشش کا ایک حصہ تھی۔
لیکن ہم نے ایوا کو اطمینان دلایا کہ کچھ نہیں ہوگا اور جب اس کو یقین آگیا تو وہ کسی حد تک مطمئن ہوگئی ہے، بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ روز یعنی 14 اگست کو اس نے ہمارے ساتھ اسلام آباد میں پودے بھی لگائے۔
اگرچہ ہم نے ایوا کو اطمینان تو دلا دیا کہ کچھ نہیں ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ نیب کس اختیار کے تحت اس حوالے سے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے؟ اور مجھے تو اب تک یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ آخر اس ویڈیو میں توہین کا عنصر کہاں ہے؟ کیونکہ نہ تو پرچم کو نذر آتش کیا گیا ہے اور نہ ہی اسے تار تار کیا گیا ہے پھر وہ کون سی بے حرمتی ہے جو کچھ لوگوں کو اس میں نظر آتی ہے۔
اگر کوئی قانونی کارروائی ہوئی تو؟
اگر اس ویڈیو کو لے کر کوئی قانونی کارروائی ہوتی ہے تو سب سے پہلے تو خود ملک کو ہی اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس طرح سیاحت کو زبردست ٹھیس پہنچے گی، بالخصوص غیر ملکی خواتین سیاحوں کو منفی پیغام جائے گا۔
ہمیں چترال، کشمیر اور دیگر مقامات میں واقع ہوٹلز مالکان کی کالز آرہی ہیں کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا تو کس طرح کام چلے گا؟ توہین کا لفظ ویسے بھی ہمارے ملک میں بڑا ہی حساس تصور کیا جاتا ہے اور اگر ہم نے توہین کے الفاظ کو سیاحوں کے ساتھ جوڑنا شروع کردیا تو پاکستان کے بارے میں ایک منفی تاثر پیدا ہوگا جو سیاحت کی صنعت کے لیے کسی طور پر ٹھیک نہیں۔
مگر ایوا نے اس سب کے باوجود بھی ہمارے ساتھ شجرکاری میں حصہ لیا۔ وہ پاکستان کو سبزے کا ایک نہایت تحفہ دے رہی ہیں۔ ایوا پاکستان میں دسمبر تک قیام کا ارادہ رکھتی ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ حکومت جتنا زیادہ عرصہ انہیں ٹھہرنے کی اجازت دے گی تو وہ اتنا عرصہ ٹھہرنا چاہیں گی۔
تصاویر بشکریہ لکھاری
تبصرے (10) بند ہیں