وہ منّے پہلوان جیسے لوگ آخر کہاں گئے؟
اکھاڑا پہلے ہی ویران ہوچکا تھا اور منّے بھائی کی موت کے بعد یہاں ویرانی نے گھر کرلیا اور اب یہ ویرانہ بھی باقی نہیں، یہاں بھی سنا ہے مکان تعمیر ہوچکے ہیں۔
منّے بھائی کے بارے میں بہت سی بنیادی باتیں معلوم نہیں۔ وہ کب اور کیسے علی گڑھ سے کراچی پہنچے، وہاں ان کا تعلق کس علاقے سے تھا اور وہ اپنے خاندان کو چھوڑ کر پاکستان کیوں چلے آئے اس بارے میں بھی واضح طور پر کچھ نہیں معلوم۔
کچھ بے ربط قصے اور باتیں ہیں جو کبھی اپنی امّاں یا گھر کے کسی اور بزرگ سے سن لیے، ان بزرگوں میں سے بھی اب بہت سے دنیا سے رخصت ہوچکے اس لیے منّے بھائی کے بارے میں بہت کچھ نامعلوم ہی رہ گیا۔ منّے بھائی کی بکھری اور فراموش کردہ کہانی لیکن ہمیشہ سے دل چسپ محسوس ہوئی۔
پڑھیے: 'پہلوانی سے بہتر ہے کچھ اور کر لیں'
منّے بھائی ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے کئی دیگر خاندانوں کی طرح جیکب لائن کے علاقے میں آکر رکے۔ وہ پہلوانی جانتے تھے سو یہاں ایک اکھاڑا بنا لیا اور ایک ایسی بستی میں جہاں رہنے والے ہجرت کے مصائب سے لڑ رہے تھے، وہاں نوجوانوں کو کشتی کے داؤ پیچ سکھانے لگے۔
کلیوں والے کرتے اور علی گڑھ کاٹ پاجامہ پہننے والے منّے بھائی کو پہلی نظر میں دیکھ کر انھیں پہلوان ماننا بہت مشکل تھا۔ اکہرا بدن، ستا ہوا لاننا چہرا، پیشانی پر گہری لکیریں اور آنکھوں میں بلا کی سنجیدگی کی تھی۔ یہ ان کی وہ تصویر ہے جو بچپن میں محض چند بار انہیں دیکھ کر ذہن میں محفوظ رہی۔
ان کے پہلوان اور استاد ہونے کی سب سے بڑی نشانی یہی بتائی جاتی ہے کہ ان کے کان ٹوٹے ہوئے تھے۔ اکھاڑے میں پہلوانی سکھانے کے ساتھ ساتھ وہ جراحی بھی کیا کرتے تھے۔ دوائیں بھی بناتے، انھیں خاص طرح کی چٹنیاں اور اچاروں کی ترکیبیں بھی معلوم تھیں جو محلے کی عورتیں ان سے پوچھنے آتی تھیں۔
منّے بھائی نے شادی نہیں کی تھی۔ رفتہ رفتہ بس جانے والی اس بستی میں جب سب خاندان کی طرح رہنے لگے تو منّے بھائی بھی اس خاندان کا ایک فرد بن گئے۔ وہ تھے بھی ہر فن مولا آدمی۔ اکھاڑے میں محلے کے لڑکے بالوں کو کُشتی کے داؤ پیچ سکھاتے، تو محلے کی کوئی خاتون منّے بھائی سے کرتے اور جیبوں والے پاجامے کی کٹنگ کروانے پہنچ جاتی۔ وہ ہر کسی کے کام کرتے، لیکن خوداری ایسی کہ کبھی کسی کے گھر کھانا بھی پسند نہیں کیا۔ اپنا روٹی سالن خود تیار کرتے، صفائی ستھرائی اور گھر کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرلیتے تھے۔
مزید پڑھیے: انوکی لوٹ آیا
محرم کے دن آتے تو منّے بھائی کی ایک اور مصروفیت ہوجاتی۔ امّاں بتاتی ہیں وہ بہت خوب صورت تعزیہ بناتے تھے۔ گتے، لکڑی، پنیوں اور چمک پٹی سے وہ اپنی عقیدت کو ایک شاہ کار کا روپ دیتے تھے۔ تعزیے میں زائرین کے چڑھاوے سے جمع ہونے والی رقم سے نیاز تیار کی جاتی اور منت کے پٹکے اور دوپٹے منّے بھائی محلے کی بچیوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ ان کے کئی شاگرد انہیں ہر سال پٹکا یا پگڑی دینے آتے تھے۔ یہ سب چیزیں بھی بانٹ دی جاتی تھیں۔
پھر ایک دن خبر ملی کہ منّے بھائی اپنی ماں سے ملنے علی گڑھ جارہے ہیں۔ شاید اس دن محلے میں کئی لوگوں کو پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ ان کے آگے پیچھے بھی کوئی ہے۔
جیسے تیسے منّے بھائی علی گڑھ پہنچے۔ بوڑھی ماں سے جب ملے تو برسوں بعد وہ تو اسے دیکھ سکتے تھے، لیکن بوڑھی ماں کی بنینائی جاچکی تھی۔ ’ارے منّا، میرے لال، تیرے غم میں میری آنکھیں چلی گئیں، ارے میں تو تیری صورت بھی نہیں دیکھ سکتی۔‘ منّے بھائی کی عمر ڈھل چکی تھی لیکن اس دن وہ ماں سے لپٹ کر بچوں کی طرح روئے۔
ماں نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے منّے بھائی کا چہری ٹٹول ٹٹول کر اپنی ممتا کی پیاس بجھائی۔ منّے بھائی کچھ دن وہاں رکے اور اپنے ماں، بھائیوں اور خویش و برادری کو چھوڑ کر واپس کراچی لائنز ایریا لوٹ آئے۔
منّے پہلوان کی عمر بڑھتی رہی، نوجوانوں کے شوق بدل گئے، شہر کی فضا بدل گئی اور ہوتے ہوتے ایک دن اکھاڑا ویران ہوگیا۔ منّے بھائی اپنی کھولی میں محدود ہوکر رہے گئے۔ علی گڑھ سے آنے والے کئی خاندان اس علاقے سے کہیں اور منتقل ہوگئے اور منّے بھاٗئی کی صحت دن بدن گرنے لگی۔
جانیے: 'پہلوانی پاکستان میں اذیت ناک موت مررہی ہے'
ان کے پرانے شاگردوں نے ان کی دیکھ بھال کی اور ایک دن منّے بھائی اسی طرح خاموشی سے دنیا سے رخصت ہوگئے، جس طرح وہ کبھی اپنی جنم بھومی چھوڑ کر اس دیس سدھارے تھے۔ امّاں منّے بھائی کی کہانی سناتے سناتے بات اس گیت کے بول سے کرتی تھیں
ڈولے کا پردہ اٹھا کر جو دیکھا
بابل نہ بابل کا دیس رے سن بابل میرے
لیکن جب بھی منّے بھائی کی کہانی سنائی اس میں کہیں حالات کے شکوے نہیں تھے۔ یہی سنتے رہے کہ وہ بے لوث ہو کر سب کے کام آتے رہے۔ محلے کے نوجوانوں کو ایک صحت مند سرگرمی میں لگائے رکھا۔ محلے کی دھی دھیانیوں کا مان رکھا۔ انہیں کھانا پکانا اور سینا پرونا سکھاتے رہے۔
اپنی روایت پر جما رہنے والا پہلوان دنیا سے رخصت ہوگیا لیکن اس کے لب پر نہ زمانے کی ناقدری کی شکایت تھی اور نہ ہی اپنے معاشرے سے کوئی شکایت۔ نہیں معلوم کہ منّے پہلوان نے کتنے سورماؤں کو چت کیا تھا اور یہ بھی نہیں پتا کہ کتنے دنگلوں میں فاتح رہے تھے، لیکن ان کے پہلوان ہونے اور رستم زماں ہونے کے لیے یہی کیا کم ہے کہ سب کچھ سہہ کر بھی ان کی زبان پر حرف شکایت نہیں آیا۔
تبصرے (3) بند ہیں