• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

کراچی میں خاتون اسکالر کی گمشدگی کی رپورٹس پر یووان رڈلے کو تشویش

شائع August 14, 2018 اپ ڈیٹ August 15, 2018
لاپتا خاتون رومانہ حسین اپنے بچوں کے ساتھ خوشگوار موڈ میں نظر آرہی ہیں — فوٹو بشکریہ فری سسٹر رومانہ فیس بک پیج
لاپتا خاتون رومانہ حسین اپنے بچوں کے ساتھ خوشگوار موڈ میں نظر آرہی ہیں — فوٹو بشکریہ فری سسٹر رومانہ فیس بک پیج

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی افغانستان میں قید کے معاملے کو دنیا کے سامنے لانے والی برطانوی خاتون صحافی یووان رڈلے نے کراچی میں مبینہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکاروں کی جانب سے خاتون اسکالر رومانہ حسین کو حراست میں لینے کے بعد 'لاپتا' کیے جانے کی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کردیا۔

10 روز قبل یووان رڈلے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر 'فری سسٹر رومانہ' کی ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'برائے مہربانی رومانہ کو ایک اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی بننے نہ دیا جائے، کیونکہ اس کی ابتدا ایسے ہی ہوتی ہے'۔

واضح رہے کہ میڈیا میں اس حوالے سے خبریں سامنے نہیں آرہیں اور یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ رومانہ حسین کے اہل خانہ کو ان کی حراست سے متعلق بات نہ کرنے کے حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔

یووان رڈلے کا کہنا تھا کہ 'ایک بہن لاپتا ہوئی ہے اور ان کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ کچھ مت کہیں، اتنا وقت گزر جانے کے باعث لوگ حیران ہیں کہ شروع میں ان کے اہل خانہ کیوں خاموش رہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے پر 'اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو برائے مہربانی اپنے سیاستدانوں پر دباؤ بڑھائیں'۔

خیال رہے کہ یووان رڈلے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر 'فری سسٹر رومانہ' کی جو پوسٹ شیئر کی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ 30 جولائی 2018 کی صبح 'انٹیلی جنس اہلکاروں' نے رومانہ حسین کو گرفتار کیا، جو ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں۔

پوسٹ میں بتایا گیا تھا کہ رومانہ چار بچوں کی والدہ اور سینٹ جوزف کالج سے سائیکولوجی اور فلسفے میں گریجویٹ ہیں اور اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کرچکی ہیں۔

رومانہ کی گرفتاری کے حوالے سے شئیر کی گئی پوسٹ میں بتایا گیا کہ 'انہیں کراچی میں ان کے گھر سے اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا کہ اُن کے گھر سے حزب التحریر کی کتابیں برآمد ہوئی تھیں'۔

یاد رہے کہ پاکستان میں حزب التحریر پر 2003 میں پابندی عائد کی گئی تھی، اس تنظیم کے حوالے سے تشویش اس وقت پیدا ہوئی تھی جب بریگیڈیئر علی خان کو اس کے ساتھ مشتبہ روابط کی بنا پر مئی 2011 میں حراست میں لیا گیا تھا، جس کے بعد مذکورہ تنظیم سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

فیس بک پوسٹ میں اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ 'انٹیلی جنس اہلکاروں نے گھر کی چار دیواری کے تقدس کو مد نظر نہیں رکھا اور نہ ہی اس بات کی پروا کی کہ 4 بچوں کو ان کی والدہ سے محروم کیا جارہا ہے'۔

مذکورہ پوسٹ میں رومانہ کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک اور قابل مذمت قرار دیا گیا۔

علاوہ ازیں رومانہ حسین کے لاپتا کیے جانے اور ان کی رہائی کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں 'فری سسٹر رومانہ' کی جانب سے بینرز بھی لگائے گئے۔

لاپتا خاتون کے اہل خانہ کا موقف

ڈان نے رومانہ حسین کے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے قریبی عزیز و اقارب نے بتایا کہ خاتون اسکالر کے خاوند پر شدید دباؤ ہے جس کے باعث وہ اس حوالے سے میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے جبکہ متضاد اطلاعات ہیں کہ رومانہ حسین کو مبینہ طور پر لاپتا کیے جانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی گئی ہے۔

علاوہ ازیں رومانہ حسین کے لاپتا کیے جانے کے کئی روز بعد 12 اگست کو ان کے خاوند منور غازی نے اپنی اہلیہ کے لاپتا کیے جانے پر خاموشی توڑتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا کہ 'میں 2 ہفتے سے اپنی اہلیہ کو تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن ناکامی ہوئی، جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 30 جولائی کو گھر سے حراست میں لیا تھا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ 'نفیس خاتون اور 4 بچوں کی والدہ ہیں، جن کے بچے ان کے گھر واپس آنے کا انتظار کررہے ہیں'۔

رومانہ حسین کے خاوند نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام سے درخواست کی کہ اس معاملے کو دیکھیں اور عید، یوم آزادی اور 'نیا پاکستان' کے موقع پر ان کی اہلیہ کو رہا کیا جائے۔

بعد ازاں سماجی رضا کار جبران ناصر نے منور غازی کی مذکورہ پوسٹ کو سماجی رابطے کی سائٹ پر شیئر کیا اور کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان ممکنہ طور پر رواں ہفتے کے اختتام پر وزیراعظم کے عہدے کا حلف لینے والے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ریاست کی جانب سے جبری گمشدگی کا معاملہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ قومی سالمیت کے لیے بھی خطرہ ہے'۔

یووان رڈلے کون ہیں؟

یووان رڈلے برطانیہ کے شہر اسٹینلے کی کاؤنٹی ڈرہم میں پیدا ہوئیں، وہ ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں، جنہیں افغانستان کے سفر کے دوران طالبان نے قید کرلیا تھا اور رہائی کے بعد انہوں نے مسیحی مذہب ترک کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا تھا اور اس کی وجہ طالبان کا حسن اخلاق اور سلوک بتایا تھا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی برطانوی خاتون صحافی نے اٹھایا تھا — فوٹو بشکریہ یووان رڈلے فیس بک پیج
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی برطانوی خاتون صحافی نے اٹھایا تھا — فوٹو بشکریہ یووان رڈلے فیس بک پیج

یووان رڈلے مختلف اخبارات اور نشریاتی اداروں کے ساتھ منسلک رہیں، جن میں سنڈے ایکسپریس، سنڈے ٹائم، آبزرور، روزنامہ مرر اور انڈیپینڈنٹ آف سنڈے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے سی این این، بی بی سی، آئی ٹی این، پریس ٹی وی اور کارلٹن ٹی وی کے لیے بھی خدمات انجام دیں اور اس حوالے سے عراق، افغانستان، فلسطین، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کا دورہ بھی کیا۔

یاد رہے کہ یووان رڈلے عورتوں کے حقوق کی علمبردار ہیں جبکہ انہیں 'جنگ وجدل' مخالف گروپ کا بانی بھی تصور کیا جاتا ہے۔

پاکستان سے لاپتا اور افغانستان میں قید کی جانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی یووان رڈلے نے ہی دنیا کے سامنے اٹھایا تھا۔

عافیہ صدیقی کی کہانی

پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی کہانی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی — فائل فوٹو
ڈاکٹر عافیہ صدیقی — فائل فوٹو

خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر 2003 میں ہی عافیہ صدیقی اپنے 3 بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتا ہوگئیں۔

عافیہ صدیقی کو لاپتا ہونے کے 5 سال بعد امریکا کی جانب سے انہیں 2008 میں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

امریکی عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 'عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں'۔

ان دستاویزات میں مزید بتایا گیا تھا کہ جب عافیہ صدیقی سے امریکی فوجی اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں،جس کے بعد انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا تھا جہاں 2010 میں انہیں اقدامِ قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024