ایران کا مسئلہ امریکی پابندیاں نہیں، آیت اللہ خامنہ ای
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکا سے مذاکرات ہوں گے نہ جنگ، ساتھ ہی انہوں نے ایران کو درپیش مسائل کی وجہ حکومتی بدانتظامی کو قرار دیا۔
غیر ملکی خبررساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والے مسائل حالیہ امریکی پابندیوں سے زیادہ حکومتی بدانتظامی کی وجہ سے ہیں۔
مزید پڑھیں : امریکا نے ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کردیں
آیت اللہ خامنہ ای کے حالیہ بیان نے ایران کے صدر حسن روحانی کے لیے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بدعنوانی کے خلاف جاری مظاہروں کے حوالے سے مزید مشکلات کھڑی کردی ہیں ۔
آیت اللہ خامنی ای نے ٹوئیٹ کیا کہ ’ امریکا کی جانب سے پابندیوں کے باوجود وہ جنگ اور مذاکرات کی بات کررہے ہیں، اب ذرا مجھے کچھ کہنے کا موقع دیں: امریکا سے نہ کوئی جنگ ہوگی اور نہ ہی مذاکرات ۔‘
آیت اللہ خامنہ ای نے ایک اور ٹوئیٹ میں کہا کہ ’ ملکی معیشت کو درپیش حالیہ مسائل بیرونی نہیں، اندرونی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان اقتصادیوں پابندیوں کا کوئی اثر نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم ان سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: ایران، سخت ترین پابندیوں کیلئے تیار ہو جائے، امریکا
خامنہ ای نے صدر حسن روحانی کے معاشی طریقہ کار پر بھی تنقید کی، انہوں نے خاص طور پر ریال کی گرتی ہوئی قدر پر تنقید کی جو اپریل سے اب تک اپنی نصف قدر کھوچکا ہے۔
تسنیم نیوز ایجنسی نے ایک کھلا خط شائع کیا جس میں ایک روز قبل گارڈز کمانڈر محمد علی جعفری نے حسن روحانی کو بڑھتی ہوئی مہنگائی، غیر ملکی کرنسی اور سونے کی قیمت میں اضافے کو روکنے کے لیے انقلابی اقدامات لینے کو کہا تھا۔‘
ایرانی سپریم لیڈر نے ان قدامت پسندوں پر بھی تنقید کی جو صدر حسن روحانی کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے تھے اور کہا کہ وہ غیرارادی طور پر دشمن کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو لازمی اقتدار میں رہنا چاہیے اور مسائل کے حل کے لیے اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہئیں۔
گزشتہ روز آیت اللہ خامنہ ای نے جوڈیشل کونسل کے سربراہ کی تجویز کردہ اقتصادی عدالت کے قیام کی منظوری دی تھی جس کے بعد 67 افراد کو کرپشن کے الزام میں گرفتار اور 100 سرکاری ملازمین کو ملک سے فرار ہونے سے روک لیا گیا۔
اس اقتصادی عدالت کی طرف سے جاری کردہ فیصلے فوری نافذ العمل ہوں گے اور اُنہیں کسی دوسری عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
خصوصی اختیارات کی حامل اس عدالت کے پاس ملزمان کو ’سزائے موت‘ دینے کے سوا باقی تمام سزائیں دینے کے وسیع اختیارات ہوں گے۔
بعض قانونی ماہرین نے ان عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی اہم قانون سازی میں پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا درست نہیں۔