• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

غزنی میں جھڑپیں جاری، 70 پولیس اہلکار، 194 جنگجو ہلاک

شائع August 13, 2018 اپ ڈیٹ August 14, 2018

کابل: افغانستان کے مشرقی شہر غزنی میں طالبان جنگجوؤں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان 4 روز سے جھڑپیں جاری ہیں، جن میں 70 پولیس اہلکاروں اور 194 جنگجوؤں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔

غیرملکی خبررساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے وزیردفاع کا کہناہے کہ افغانستان کے مشرقی علاقے میں طالبان سے جاری حالیہ جھڑپوں میں 100 پولیس اہلکار اور کم از کم 20 شہری جاں بحق ہوئے۔

وزیردفاع جنرل طارق شاہ بہرامی نے پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ غزنی میں 4 روز سے جاری جھڑپوں میں ہلاکتوں کی اصل تعداد معلوم نہیں۔

وزیرداخلہ اویس احمد برمک نے بتایا کہ حالیہ جھڑپوں میں تقریباًٍ 70 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں : غزنی کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا، افغان حکام کا دعویٰ

وزیر دفاع نے بتایا کہ غزنی کی جانب ایک ہزار اضافی دستے روانہ کردیے گئے ہیں تاکہ طالبان کو علاقے پر قبضہ کرنےسے روکا جاسکے۔

انہوں نے بتایا کہ جھڑپوں میں12 اہم رہنماؤں سمیت 194 جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں جن میں کچھ غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت غزنی کے علاقے میں مزید نفری روانہ کررہی ہے جہاں شہری، طالبان جنگجوؤں کے گلیوں میں آزادانہ گھومنے سے پریشان ہیں۔

طالبان کی جانب سے غزنی شہر پر حملے کو 4 روز ہوگئے ہیں لیکن گورنر کا دعویٰ ہے کہ حالات حکومتی کنٹرول میں ہیں۔

موجودہ صورتحال کے پیشِ نظراقوام متحدہ نے انسانی بحران پیدا ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے کیونکہ غزنی میں شہریوں کو غذا ورادویات کی کمی کا سامنا ہے۔

ایک اے ایف پی رپورٹر نے بتایا کہ جنگجو گھروں کا رخ کررہے ہیں اور زخمیوں کو لے جانے کے لیے پانی، چائے اور دیگر سامان تحویل میں لے رہے ہیں۔

شہریوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کو رات گئے جنگجوؤں اور اہلکاروں کی لاشیں سڑکوں پر موجود تھیں جبکہ طالبان جنگجوؤں نے کئی سرکاری عمارتوں کو بھی آگ لگادی۔

انہوں نے بتایاکہ شہر میں بجلی تاحال بند ہے اور کھانے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

غزنی کے صحافی فیاضہ فیاض نے کابل آنے پر بتایا کہ’ ہر شخص شہر چھوڑ کر بھاگنا چاہ رہا ہے،اکثر لوگ اپنے گھروں کے تہہ خانوں میں چھپے ہوئے ہیں کیونکہ ایک گلی سے دوسری گلی میں گولیاں چل رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق علاقے میں موجود مواصلاتی نظام صحیح سے کام نہیں کررہا جس کی وجہ سے اطلاعات کی تصدیق میں دقت کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : غزنی پرکنٹرول کے حکومتی دعوے کے باوجود جھڑپیں جاری

واضح رہے کہ دو روز قبل افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش اور افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان نے طالبان کے خلاف جوابی کارروائی کو کلیئرنس آپریشن قراردیا تھا۔

لیکن حکومتی دعووں کے بعد بھی شہر میں طالبان جنگجوؤں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔

4 روز قبل جمعرات کو رات گئے طالبان جنگجو کئی راستوں سے غزنی میں داخل ہوئے اور میڈیا دفاتر اور مواصلاتی ٹاورز پر حملے کرکے انہیں نقصان پہنچایا تھا۔

بعد ازاں امریکا نے غزنی میں طالبان کے مسلسل حملوں کے جواب میں شہر میں طالبان کو نشانہ بناتے ہوئے متعدد فضائی حملے بھی کیے تھے۔

افغان حکام کی جانب سے ہلاکتوں کی صحیح تعداد نہیں بتائی جارہی اور طالبان کو شدید نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔

کابل میں الیکشن کمیشن کے قریب دھماکا،پولیس اہلکارہلاک

ادھر افغان دارالحکومت میں پول چرکی کے علاقے میں انڈیپینڈنٹ الیکشن کمیشن آفس کے قریب دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا۔

طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق کابل میں پول چرکی کےعلاقے پی ڈی 9 میں انڈیپینڈنٹ الیکشن کمیشن آفس کے قریب خودکش دھماکے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔

دھماکے کے بعد پولیس نے علاقے کو سیل کردیا ہے اور جلال آباد روڈ بند کردیا ۔

واضح رہے کہ جس علاقے میں دھماکا ہوا وہاں انڈیپینڈنٹ الیکشن کمیشن آفس کے قریب پارلیمانی الیکشن کے 35 امیدوار نااہلی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

خاما پریس کی رپورٹ کے مطابق کابل پولیس کے ترجمان حشمت نے حادثے کی تصدیق کی اور بتایا کہ خودکش بمبار نے الیکشن آفس کے قریب دھماکا کیا۔

انہوں نے بتایا کہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بج کر 15 منٹ پر ہوا جب خود کش بمبار الیکشن کمیشن کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خودکش بمبار کو پولیس نے شناخت کرلیا تھا اور جب اسے گرفتار کرنے لگے اس نے دھماکا کردیا۔

کسی گروہ یا جماعت نے تاحال واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024