سعودی عرب کی کینیڈا سے ناراضی، کیا کینیڈا واقعی تنہا رہ گیا؟
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا، ’سفارتکاری ایسے انداز میں جہنم کا راستہ بتانے کا فن ہے کہ لوگ خود سمت پوچھنے پر مجبور ہوجائیں‘۔ ڈپلومیسی کے بارے میں سابق امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ کا خیال تھا کہ ’اگر باعزت طریقے سے لڑائی سے بچنا ممکن ہو تو کسی کو ضرب مت لگاؤ لیکن ضرب لگانا پڑے تو نرمی مت دکھاؤ‘۔ سعودی عرب، کینیڈا تنازع اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل کے بادشاہ محمد بن سلمان چرچل کے فلسفے کے بجائے روزویلٹ کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان جس طرح حریف شہزادوں کو طاقت کے بل پر پچھاڑتے ہوئے سعودی عرب کے تخت کے وارث بنے وہی انداز ان کے سفارتی اطوار میں بھی جھلکتا ہے۔ محمد بن سلمان نے 2015ء میں یمن جنگ چھیڑی، مارچ 2015ء میں ہی انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید پر سویڈن سے سفیر واپس بلا کر سفارتی تنازعات کی بنیاد رکھی۔
جون 2017ء میں سعودی عرب نے قطر کا مقاطعہ کرکے اسے عرب دنیا میں تنہا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ نومبر 2017ء میں لبنان کے وزیراعظم کو ریاض طلب کرکے جبری استعفیٰ لیا، سعد حریری سے جبری استعفیٰ پر جرمنی نے تنقید کرتے ہوئے لبنان کو سعودی عرب کا مہرہ کہا تو برلن کو بھی سفارتی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمنی آج بھی سعودی غیظ و غضب کا سامنا کر رہا ہے اور سعودی عرب نے جرمن کمپنیوں کے ساتھ کاروبار پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔
کینیڈا ہمیشہ سے خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن تصور کرتا ہے اور سعودی عرب پر کینیڈا نے پہلی بار تنقید نہیں کی، مگر ایسا پہلی بار ہے کہ کینیڈا سفارتی محاذ پر تنہا کھڑا نظر آتا ہے اور اس کے اتحادی بھی اس سفارتی تنازع پر لب کھولنے کو تیار نہیں۔ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ امریکا اور کینیڈا اب پہلے جیسے اتحادی نہیں رہیں گے۔
پڑھیے: سعودی عرب نے کینیڈا تنازع میں ثالثی کا امکان مسترد کردیا
صدر ٹرمپ نے شمالی امریکا کے ساتھ آزاد تجارت معاہدے پر نظرثانی کا کہا، کینیڈین سرحد سے ہزاروں تارکین وطن کی امریکا میں کھلے بندوں آمد پر اعتراض اٹھایا اور اوٹاوا کی تجارتی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس سب کے باوجود بھی اگر کینیڈا کو کوئی خوش فہمی تھی کہ دیرینہ اتحادی ہونے کے ناطے واشنگٹن انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا تو وہ بھی اب تک دور ہوچکی ہوگی۔ کینیڈا کی طرف سے ایک ٹوئیٹ پر سعودی عرب کے سخت اقدامات پر کسی قسم کی ثالثی کے بجائے امریکا نے دونوں ملکوں کو معاملہ باہمی طور پر حل کرنے کا کہہ کر دامن بچا لیا۔ امریکا اور کینیڈا کی مثالی ہمسائیگی کی مثالیں دینے والوں کے لیے واشنگٹن کی توتا چشمی بھی لمحہ فکر ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ نے کہا کہ دونوں ملک سفارتی سطح پر باہم معاملہ حل کرلیں، امریکا ان کے لیے یہ نہیں کرسکتا۔ امریکا کے اس طرح دامن چھڑانے پر کینیڈا کے سابق وزیراعظم کے ساتھ بطور پالیسی ڈائریکٹر کام کرنے والی راکیل کرن نے ٹوئیٹ کیا کہ پوری دنیا میں کینیڈا کا کوئی دوست نہیں رہا۔
کینیڈا کی فیڈرل لبرل پارٹی کے سابق رہنما باب رائے نے ٹوئیٹ کی کہ برطانوی اور ٹرمپ کے ساتھی یہ کہہ کر چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم سعودی عرب اور کینیڈا دونوں کے دوست ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا حمایت کے لیے شکریہ، ہم اسے یقیناً یاد رکھیں گے۔
سفارتی تنازع کی وجہ کینیڈین وزارتِ خارجہ کی ایک ٹوئیٹ تھی جس میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریوں پر اظہارِ تشویش کیا گیا تھا اور اقوام متحدہ بھی اسی طرح کی تشویش کا اظہار کرچکا تھا۔ سعودی عرب نے اس ٹوئیٹ پر اتنا سخت اور اچانک ردعمل دیا کہ کینیڈا سمیت پوری دنیا چونک اٹھی۔ اس شدید ردِعمل پر حیران رہ جانے والے ابھی تک اندازے لگا رہے ہیں کہ آخر اس ٹوئیٹ میں ایسا کیا تھا جس نے سعودی عرب کو اس قدر سخت ردعمل پر مجبور کردیا؟
یہ تو سعودی خود ہی بہتر بتاسکتے ہیں تاہم عرب دنیا کے مزاج شناس یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ کینیڈین وزارتِ خارجہ کی ٹوئیٹ تنازع کی جڑ ضرور ہے لیکن سعودیوں کے غصے کی اصل وجہ کینیڈین سفیر کی ٹوئیٹ ہے جو وزارتِ خارجہ کی ٹوئیٹ کا ہی عربی ترجمہ تھی۔
سعودی عرب کو غصہ یہ ہے کہ عربی ترجمہ کے ساتھ ٹوئیٹ عام سعودی کو بھڑکانے کی کوشش ہے۔ ایک اور وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سعودی ہمیشہ سے حساس معاملات پر بند دروازے کے پیچھے بات کرنے کے عادی ہیں لیکن کینیڈین وزارتِ خارجہ نے ٹوئیٹر کا استعمال کرکے بیچ چوراہے معاملہ زیرِ بحث لانے کی غلطی کی۔
سعودی غضب کا نشانہ تو کینیڈا ہے لیکن پیغام پوری مغربی دنیا کے لیے ہے کہ سعودی عرب اب انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں پر یورپ کا مزید لیکچر سننے کو تیار نہیں، سعودی عرب نے کینیڈین سفیر کی بے دخلی کے ساتھ تجارتی روابط توڑنے، قومی ایئرلائن کی پروازیں روکنے، طلبہ کے اسکالرشپ دوسرے ملکوں میں منتقل کرنے اور زیرِعلاج مریضوں کو بھی کینیڈا سے نکالنے کے اقدامات کیے، ان سخت اقدامات پر کینیڈا کے یورپی اتحادیوں کی خاموشی واضح کرتی ہے کہ پیغام نہ صرف پہنچ گیا بلکہ مقصد بھی پورا ہوچکا۔
کینیڈا چاہتے ہوئے بھی سعودی عرب کے ساتھ لڑائی کو ختم کرنے میں فوری طور پر کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ 14 ماہ بعد کینیڈا میں الیکشن ہونے والے ہیں، وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت پہلے ہی سعودی عرب کے ساتھ 12 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے پر تنقید کی زد میں ہے جو 2014ء میں طے پایا تھا۔ سفارتی جنگ کے بعد اس معاہدے کا مستقبل اب تک واضح نہیں۔ اگر وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سفارتی تنازع اور انسانی حقوق کے ایجنڈے پر نرمی دکھاتے ہیں تو انہیں اندرونی طور پر بڑے نقصان کا خدشہ ہے۔ بیرونی محاذ پر ان کی سفارتی تنہائی اس سے بھی بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
ایک طرف جسٹن ٹروڈو کی اندرونی مجبوریاں ہیں تو دوسری طرف محمد بن سلمان کی ترجیحات بھی لہجے اور رویے میں نرمی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ محمد بن سلمان نے یمن جنگ چھیڑ کر سعودی نوجوانوں کے لیے ہیرو اور رول ماڈل بننے کی کوشش کی جو سعودی مفادات پر سمجھوتے کے بجائے ڈٹ کر کھڑا ہوتا ہے۔
محمد بن سلمان کا اصلاحاتی پروگرام بھی انہیں نرمی اور مفاہمت برتنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک طرف وہ خواتین کے حقوق کے چیمپئن بننے کی کوشش میں سخت گیر مذہبی طبقے کی مخالفت مول بیٹھے ہیں، دوسری طرف وہ ملکی معیشت کو خود انحصاری کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جس کے لیے انہیں مغرب کی ضرورت تو ہے لیکن وہ یہ باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ سعودی عرب میں کاروباری مواقع تلاش کرنے والے ملک صرف کاروبار پر دھیان دیں اور تنقید کرکے ان کے ایجنڈے کو مشکلات میں نہ ڈالیں۔ مستقبل کے بادشاہ محمد بن سلمان چاہتے ہیں کہ عالمی معاملات میں بھی ان کا کردار محدود نہ رہے اور اتحادی ملک انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر بادشاہت کو چیلنج کرنا بند کردیں۔
پڑھیے: سعودی عرب کا دنیا کو ایک اور سرپرائز، آخر ہو کیا رہا ہے؟
کینیڈین حکومت ایک ایسے جال میں پھنس چکی ہے جہاں سے نکلنے کی کوئی راہ اسے سجھائی نہیں دیتی۔ باعزت حل کی تلاش میں کینیڈا نے سویڈن اور جرمنی سے مشورہ مانگا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ کیونکہ جرمنی اور سویڈن بھی اس مصیبت کا شکار بن چکے ہیں۔ کینیڈا کی وزیرِ خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے اس حوالے سے دونوں ملکوں سے ذاتی طور پر رابطہ کیا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سویڈن اور جرمنی کے سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تنازعات میں کینیڈا بھی خاموش تماشائی تھا کیونکہ اس وقت اس کا خیال تھا کہ اس تنازع میں ٹانگ اڑانا اس کے مفاد میں نہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا نے برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے بھی مدد طلب کی ہے جو سعودی عرب کے دیرینہ اتحادی ہیں۔
کینیڈا کے اتحادیوں کی خاموشی کی ایک اور وجہ سعودی عرب میں متوقع تجارتی مواقع ہیں۔ وژن 2030ء کے تحت سعودی عرب تیل پر انحصار میں کمی کے لیے کئی بڑے منصوبے بنا رہا ہے جن پر امریکا سمیت کئی ملکوں کی نظریں جمی ہیں۔ سعودی عرب دنیا میں اسلحے کا بھی سب سے بڑا خریدار ہے اور اسلحہ بیچنے والے ملک کبھی بھی سعودی ناراضگی مول لینا نہیں چاہیں گے۔
پڑھیے: کیا سعودی ولی عہد اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں؟
آج کے دور میں سفارتی امور سوشل میڈیا کے ذریعے انجام دینے کا چلن عام ہے لیکن سعودی کینیڈا تنازع اس بات کی یاددہانی ہے کہ ٹوئیٹر پر ڈپلومیسی خطرات سے خالی نہیں۔ ٹوئیٹر ڈپلومیسی کو فروغ صدر ٹرمپ نے دیا۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو پر صدر ٹرمپ کی طرف سے ٹوئیٹر پر ذاتی حملے، پاکستان کی امداد معطل کرنے کا اعلان، چین کے لیے وارننگز، شمالی کوریا کے کم جونگ ان کی توہین اور پھر مذاکرات کی کہانی، ترکی سمیت مختلف ملکوں کی مصنوعات پر ٹیرف بڑھانے کا اعلان صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹر ڈپلومیسی کی چند مثالیں ہیں۔ صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹر ڈپلومیسی نے بھی موجود تنازعات کو بڑھاوا دیا اور کئی نئے جھگڑے کھڑے کیے۔ کینیڈین وزارتِ خارجہ کی ٹوئیٹ ٹویٹر ڈپلومیسی کے سائیڈ ایفیکٹس کی نئی مثال ہے۔
عام حالات میں امریکا کے لیے یہ معمولی بات تھی کہ وہ اس معاملے میں ثالث بن کر معاملے کو رفع کردیتا لیکن صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹر ڈپلومیسی نے جسٹن ٹروڈو کو دشمن اور شہزادہ محمد بن سلمان کو قریبی دوست بنا کر پیش کیا، اس کے بعد امریکا کی طرف سے مداخلت کی توقع تھی نہ ہی اس کے سودمند ہونے کا کوئی امکان۔
اب ریاض اور اوٹاوا کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ گرد بیٹھنے کا انتظار کریں اور پھر ٹوئیٹر ڈپلومیسی کو چھوڑ کر روایتی سفارتی انداز میں خاموشی سے معاملے کو حل کرنے کے لیے کام کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ کینیڈین وزیرِ خارجہ کرسٹیا فری لینڈ اور دنیا بھر کے سفارتکاروں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ ٹوئیٹر پر دھیان کم کریں اور مسائل پر براہ راست بات چیت کے روایتی سفارتی انداز کو اپنائیں۔
تبصرے (12) بند ہیں