چترال میں امتحانی نتائج سے دلبرداشتہ ایک اور طالبعلم کی خودکشی
چترال میں امتحانی نتائج میں کم نمبر آنے پر 3 طلبا کے بعد ایک اور طالب علم نے بھی دل برداشتہ ہوکر خود کشی کرلی۔
پولیس ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق ٹیسٹ میں کم نمبر آنے پر طالب علم اسکالر شپ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا جبکہ اس کے دو قریبی دوست اسکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ طالب علم نے اپنے امتحانی نتائج موصول ہونے کے بعد دلبرداشتہ ہو کر خود کو گولی مارلی تھی۔
متوفی کے دوست نے ڈان نیوز کو بتایا کہ وہ زندہ دل انسان تھا اور ایک خوش باش زندگی گزار رہا تھا۔
اس کا کہنا تھا کہ ’میں ابھی تک یہ ماننے کو تیا ر نہیں کہ اس نے خودکشی کرلی ہے۔‘
خیال رہے کہ انٹرمیڈیٹ کالجوں کی جانب سے پیر کی سہ پہر 4 بجے نتائج جاری کیے گئے تھے لیکن علاقے میں موجود انٹرنیٹ کی ناقص صورتحال اور ویب سائٹ پر شدید دباؤ کے باعث اکثر طالب علم بروقت نتائج نہیں دیکھ سکے تھے۔
مزید پڑھیں : چترال: امتحانی نتائج سے دلبرداشتہ 3 طلبا کی خود کشی
دو روز قبل چترال ہی کے علاقے میں دو لڑکیوں اور ایک لڑکے نے ایف ایس سی کے نتائج میں کم نمبر آنے پر دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کرلی تھی۔
ایک طالبہ کی لاش تلاش کرلی گئی جبکہ دوسری طالبہ کی لاش نہیں مل سکی جبکہ لڑکے نے خود کو گولی مارلی تھی اور اسے شدید زخمی حالت میں قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
تاہم تینوں واقعات میں خاندانوں کی جانب سے یہ سمجھا گیا تھا کہ طلبا نتائج کی وجہ سے دلبراشتہ ہوگئے تھے اور تنگ آکر انہوں نے خودکشی کرلی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ ان حادثات کی ہرممکن تحقیقات کریں گے۔
پولیس ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ وہ تفتیش کے بعد واقعے کا مقدمہ درج کریں گے لیکن تاحال کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
چترال میں واقع سول آرگنائزیشن ہیومن رائٹس پروگرام کے چیئرمین نیاز نیازی کے مطابق پولیس کی ناقص کارکردگی کے باعث خودکشی کے کئی کیسز درج نہیں کیے جاتے۔
یہ بھی پڑھیں : این سی اے طالبِ علم کا قتل، 2 مشتبہ افراد گرفتار
انہوں نے بتایا کہ چترال میں سالانہ 40 سے 45 افراد خودسوزی کرتے ہیں،رواں سال 2018 میں 20 افراد اپنی جان لے چکےہیں۔
نیاز نیازی کا کہنا تھا کہ اکثر کیسز میں مقامی افراد اور ان کے عزیز و اقارب علاقے کی روایات کے باعث مقدمہ درج نہیں کرواتے اور نہ ہی پولیس ان مقدمات کی تفتیش کرتی ہے۔