کیا عمران خان بھٹو بن سکتے ہیں؟
کیا پاکستانی سیاست کے سب سے سحر انگیز سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کا تحریکِ انصاف کے سربراہ محترم عمران خان سے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے موازنہ کیا جاسکتا ہے؟
ایک عرصے تک ہمارے خان صاحب بھٹو صاحب کی عوامی سیاست کو سراہتے رہے مگر انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھٹو صاحب کا مقام کبھی نہیں بخشا بلکہ حالیہ دنوں میں اُن کے شوہر آصف علی زرداری اور اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کا تذکرہ بڑے ہی تضحیک آمیز انداز میں کرتے رہے۔
وزارتِ عظمیٰ کا تاج سر پر رکھنے کے بعد کیا وہ اُن کا اندازِ سیاست اپنائیں گے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستانی سیاست کے اس دوسرے بڑے رہنما کو کیا کوئی مقام دیں گے؟ اس پر گفتگو ذرا بعد میں۔
تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ دونوں کو ہی اپنی نوجوانی میں اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت ملی اور ہاں پاکستانی سیاست میں 2 ہی ایسے بڑے سیاستدان ہیں جن پر Ladies Man کا جملہ سجتا ہے۔
5 جنوری 1928ء کو پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کی زمین تقسیم سے پہلے ہی کوسوں میل پر پھیلی ہوئی تھی، مگر ایک فیوڈل شہزادہ ہونے کے باوجود انہوں نے مغرب کی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور وطن واپسی پر ایک وکیل کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔
50ء کی دہائی کا کراچی نائٹ کلبوں اور ریس کورسوں کا شہر کہلاتا تھا۔ اسکندر مرزا کراچی میں ایوانِ صدر میں براجمان ہوچکے تھے جن کی ایرانی نژاد بیگم ناہید مرزا ایوانِ صدر میں ’ایرانین نائٹس‘ سجاتی تھیں۔ بھٹو صاحب ان محفلوں کی جان ہوتے تھے، پس اُن کی ملاقات نصرت سے ہوئی جو اُن کی بعد میں دوسری بیگم بنیں۔
پڑھیے: اتاترک سے دشمنی، جناح سے دوستی بھی؟
اسکندر مرزا کے بعد صدر ایوب خان کی کابینہ میں نوجوان بھٹو نے اپنی علمیت اور انگریز دانی سے جلد ہی منفرد مقام بنالیا۔ پہلے پانی اور بجلی کے وزیر اور پھر صرف 36 سال کی عمر میں وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالا۔ بھٹو صاحب کو 1965ء کی جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے آپریشن ’جبرالٹر‘ پلان کیا جس کے سبب بھارت کو پاکستان پر حملے کا موقع ملا۔
65ء کی جنگ میں روسی مداخلت سے دونوں روایتی دشمن برابر جھٹ گئے مگر بھٹو صاحب کو تاشقند میں ہونے والا معاہدہ قبول نہ تھا۔ تاشقند ڈکلیریشن کی مخالفت اور سلامتی کونسل میں اُن کی تقریروں نے راتوں رات انہیں پاکستانی عوام کا ہیرو تو بنا ہی دیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساری دنیا میں بھی اُن کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔
ایوب خان کی حکومت سے علیحدگی اُن کی سیاسی زندگی کا پہلا بڑا امتحان تھا جس پر وہ پورے اترے۔ نومبر1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور محض 3 سال بعد ہی صرف 44 سال کی عمر میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ اُن کا 5 سالہ دورِ اقتدار اور پھر جولائی 1977ء میں اقتدار سے علیحدگی اور اپریل 1979ء میں پھانسی پانے کے بعد آج بھی وہ اپنی قبر سے کروڑوں عوام کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔
دوسری طرف تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سیاست نہیں بلکہ کرکٹ کے میدان کے کھلاڑی تھے مگر دیگر پاکستانی کھلاڑیوں سے مختلف۔ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، لندن کی ایسٹ سوسائٹی میں Play Boy اور پھر پاکستانی کرکٹ ٹیم کو پہلی بار ورلڈ کپ دلا کر عمران خان بھی بھٹو صاحب کی طرح پاکستان کے کروڑوں عوام کے ہیرو بن گئے۔
پڑھیے: عمران خان کے اقتدار کو خطرہ ’کب‘ اور ’کیوں‘ ہوسکتا ہے؟
شوکت خانم ہسپتال نے اُن کی شہرت کو چار چاند لگائے مگر سیاست اُن کا میدان نہ تھا۔ پہلی بار 1997ء میں عملی سیاست میں آئے تو وہ 12ویں کھلاڑی تھے۔ 2002ء کی انتخابی شکست کے بعد کوئی اور ہوتا تو لندن میں جا کر پناہ لے لیتا مگر اُن کے اندر کا کھلاڑی ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھا۔ 2008ء میں انتخابی بائیکاٹ کے بعد 2013ء میں خیبرپختونخوا میں شاندار کامیابی اُن کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے پہلی سیڑھی بنی اور پھر 25 جولائی 2018ء کو اُنہیں 23 سال کی سیاست کا ثمر ملا اور اب یہی وہ دن اور وقت ہے جہاں سے اُن کے سیاسی امتحان کا آغاز ہوتا ہے۔
بھٹو صاحب محض ایک سیاستدان نہیں اسٹیٹمین تھے، اس حیثیت میں انہوں نے اپنا لوہا ساری دنیا میں منوایا جبکہ عمران خان کے اندر کا کھلاڑی ابھی تک اُن کے اندر سے نہیں نکلا۔ اُن کے اردگرد نو آموز سیاسی کھلاڑیوں یا پھر مقامی روایتی سیاستدانوں کا ایک گروپ ہے جو اُن کو ایک مزید عظیم سیاسی رہنما بننے سے روکے ہوئے ہے۔
بھٹو صاحب کو تاریخ کا ادراک تھا، کتب بینی کے بے انتہا شوقین تھے، اپنی علمیت، قابلیت کا لوہا منوانا جانتے تھے۔ ڈاکٹر ہنری کسنجر جیسے شاطر وزیرِ خارجہ نے مشہور صحافی اوریانا فلاسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دنیا میں جن چند شخصیات سے متاثر ہیں، بھٹو اُن میں سے ایک ہیں۔
لیکن دونوں کے ماضی اور حال کو دیکھنے کے بعد معذرت کے ساتھ کہنے دیجیے کہ عمران خان کو وزیرِ اعظم بننے کے باوجود بھٹو صاحب کے گرد تک پنہچنے کے لیے بھی ایک طویل عرصہ درکار ہے اور بدقسمتی یہ کہ عمر کے اس حصے میں شاید وہ وہاں تک پنہچ نہ پائیں۔
تبصرے (15) بند ہیں