• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اتاترک سے دشمنی، جناح سے دوستی بھی؟

شائع August 5, 2018
لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

عمران خان کی ایک فوٹو شاپڈ تصویر گزشتہ چند ہفتوں سے میرے فیس بک پیج کی زینت بنی ہوئی ہے جسے میں اب ہٹانے لگا ہوں۔ یہ الیکشن کے وقت کا ایک کارٹون ہے جو ایک ناراض دوست نے شیئر کیا تھا۔ اس میں مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ عمران خان نے ایک جنرل کی ٹوپی پہن رکھی ہے جو خود ایک جج کی وِگ کے اوپر سجی ہوئی ہے۔

پیغام ان کے ہندوستانی اور پاکستانی ناقدین کے دعوؤں کی توثیق کرتا ہے کہ کچھ اداروں نے کسی طرح آپس میں ملی بھگت کی تاکہ سابق کرکٹ اسٹار کو اپنے مخالفین کے سامنے فائدہ حاصل ہوسکے۔

چوں کہ میرے پاس الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے میں اپنے تبصرے کو صرف اس حد تک محدود رکھوں گا کہ جہاں تک مجھے کم شک ہے۔ اب چوں کہ جنگ جیتی اور ہاری جاچکی ہے، تو شیکسپیئر کے میکبیتھ کی جادوگرنیوں کا حوالہ دیتے ہوئے شاید یہ وقت ہے کہ شدید مسائل کی شکار قوم کے معاملات چلانے پر توجہ دی جائے۔ ان معاملات میں خارجہ پالیسی کے دیگر چیلنجز کے ساتھ ہندوستان سے بہتر تعلقات بنانا بھی شامل ہے۔

عمران خان کی یہ پریشان کن تصویر اپنے پیج سے ہٹانے کی ایک اچھی وجہ ان کی 2011ء میں سامنے آنے والی یادداشتوں ’پاکستان: اے پرسنل ہسٹری‘ کو دوبارہ پڑھنا بھی ہے۔ یہ کتاب عمران خان کی شخصیت کے اردگرد موجود پردے کو کاٹ دیتی ہے۔ میں نے عمران خان کے فوج کے ساتھ مبیّنہ تعلقات کے شواہد ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر مجھے اس کے متضاد ہی ثبوت ملے۔

پڑھیے: عمران خان کے اقتدار کو خطرہ ’کب‘ اور ’کیوں‘ ہوسکتا ہے؟

عمران ہمیں غصیلے انداز میں بتاتے ہیں کہ کس طرح جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت کو برباد کیا، جس کی وجہ سے انہوں نے بعد میں ایک ڈکٹیٹر کی جانب سے حکومت میں شمولیت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ عمران یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پرویز مشرف نے انہیں پیشکش کی تھی۔

اور مشرف کا یہ سابق کرکٹر کو وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کرنے سے انکار کرنا کیا دکھاتا ہے، فوج کے ساتھ ملی بھگت یا فوج سے اختلاف؟ وہ مشرف کی بڑی غلطیوں کی فہرست گنواتے ہیں جو کہ ہندوستانی اور پاکستانی صحافیوں کے عمران کی ترجیحات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

عمران خان کی زیرِ سربراہی پاکستان کو لاحق مرکزی مسائل کا تعلق ان خیالات سے ہوگا جن پر وہ زور دیتے رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ پاکستان کو قائدِ اعظم کے خوابوں کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کا کون سا لبرل دوست اس سے انکار کرنا چاہے گا؟

ایک سیکولر پاکستان کا وعدہ جناح نے 1947ء میں کیا تھا، اور ان کے سخت ترین ناقد ایل کے ایڈوانی نے بھی اس پر ان کی تعریف کی، اور ایک غیر معمولی نکتہ نظر رکھنے کے لیے اپنے سیاسی کیریئر کو داؤ پر لگایا۔

مگر خوابوں کے اس دھندے کے ساتھ مسئلہ کافی گہرا ہے۔ مارکس، ماؤ، گاندھی یا منڈیلا کے وارث ہونے کے مخالف دعویداروں کی طرح اس بات کے بھی مختلف تشریحات ہیں کہ جناح اپنے ملک کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے۔ قائدِ اعظم کے خود ساختہ پیروکاروں نے بھی ان کے اس وعدے کو جھٹلا رکھا ہے۔

کیا اس خواب کی عمران خان کی پیروی کچھ مختلف ہوگی؟ چاہے صورت کوئی بھی ہو، انہیں جیتنے یا ہارنے کا موقع ضرور ملنا چاہیے، امید ہے کہ سابقہ کا۔

مزید پڑھیے: چین کے ساتھ اچھے تعلقات عمران خان کا سب سے بڑا امتحان؟

مشرف نے اپنے لاپرواہ سیاسی اسٹائل میں لال مسجد کے سانحے کا ملبہ اور الگ تھلگ ہونے کا احساس لیے بلوچستان کو پیچھے چھوڑا تھا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرف شاہِ ایران اور مصطفیٰ کمال اتاترک کا ملغوبہ بننا چاہتے تھے۔

بظاہر اتاترک کی مخالف کرکے عمران خان شاید نادانستہ طور پر جناح کے ہیرو اور ان کے خواب کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایک پُرامن سی بحث پاکستان کی لبرل لابیوں میں آنے والے اس بھونچال کو ختم کرسکتی ہے جو عمران خان کے ان خیالات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

عمران خان بظاہر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ماڈرنائزیشن کی خواہش میں پاکستان کو مغربی کہاوتوں میں نہیں کھو جانا چاہیے۔ اس وارننگ کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے شاہِ ایران نے مسلم ملائیت کے لیے میدان صاف کیا کیوں کہ غریب ترین ایرانی مذہبی رجحان رکھتے تھے اور جب شاہ نے ایرانی سلطنت کے ورثے اور اس کے مغربی جدیدیت کے ساتھ ملاپ کا مظاہرہ کرنے کے لیے تختِ جمشید کے کھنڈرات میں ایک زبردست میلے کا اہتمام کیا تھا، تو شاہ کی نظر غریبوں پر نہیں تھی۔

عمران خان ان عوامی فنکشنز پر غصے کا اظہار کرتے ہیں جن کا انعقاد پرویز مشرف اپنی رہائش پر نامعلوم مقاصد کے تحت کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستانی ٹی وی پر آنے والے بلائنڈ ڈیٹ جیسے پروگرام قدامت پسند مسلمانوں کے لیے باعثِ اشتعال تھے۔

میں 1961ء میں ملکہ الزبتھ کے دورہ پاکستان پر ایک ٹی وی رپورٹ دیکھ رہا تھا۔ مجھے اس میں خوش باش اور رنگین تقریبات نظر آئیں جن میں قدامت پسند کلچر کو روایتی ناچ پیش کرتی اسکول کی لڑکیوں اور دیہاتی رقاصاؤں کے ساتھ ہم آہنگ دیکھا۔

مذہب اور اس کے ساتھ جڑی ثقافت جنوبی ایشیاء کے بے صبرے لبرلز کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر ابھری ہے۔ انہیں ہندوستان اور پاکستان کے بائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے گائی جانے والی فیض احمد فیض کی مشہور نظم کو دیکھنا چاہیے۔ یہ 'ہم دیکھیں گے' ہے، بائیں بازو کا ایسا گیت جو خدائی مددگار کا طلبگار ہے۔

یہاں ایک بڑی پریشانی بھی ہے جس نے ہندوستانی کمیونسٹوں کو گھیر رکھا ہے، جو کہ شاید پاکستان میں عمران خان کے ناقدین کے لیے باعثِ دلچسپی ہو۔ 70 سالوں میں ڈائیلیکٹل مٹیریل ازم کی مارکس کی تھیوری کو فروغ دینے کے بجائے ہندوستانی کمیونسٹ اب ہندو علامتوں کو اپنا کر اپنے سوشلسٹ تصورات کے لیے حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

اور سب پر حاوی لبرل ذوالفقار علی بھٹو نے مذہب کے ساتھ کیا کیا؟ اور نواز شریف نے افغان طالبان سے ادھار لیا ہوا لقب امیر المومنین حاصل کرنے کا تصور کب چھوڑا؟ اگر یہ تصور ان کے ذہن میں کبھی تھا بھی۔

عمران خان کو عورت مخالف ہونے کا الزام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک خاتون ناقد نے انہیں اپنی عمر سے آدھی خاتون سے شادی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ جمائمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے جمائمہ کو صیہونی ہونے کا الزام دیا۔ یہ ہندوستان میں سونیا گاندھی پر اچھالے گئے کیچڑ کی طرح ہے اور اگر عمر کی بات کریں تو یہاں اخلاقی پولیس کون بن رہا ہے؟

جانیے: اسلام آباد پر راج کرنے کیلئے تختِ لاہور کا سہارا ناگزیر

زیادہ سنگین الزام یہ ہے کہ عمران خان مغربی فیمنزم کو ماؤں کے رتبے میں کمی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ میں نے ان کا انٹرویو سن رکھا ہے۔ اس میں عمران خان کہیں بھی عورت مخالف یا فیمینزم مخالف نہیں معلوم ہوئے۔

مغربی فیمینسٹ مائیں خود بھی اس حوالے سے گہری تفریق کا شکار ہیں کہ آیا انہیں بچوں کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ یونیسیف کے مطابق انہیں ایسا کرنا چاہیے کیوں کہ عورت کے حقوق کے ساتھ ساتھ بچے کے حقوق بھی تو داؤ پر ہیں۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ مامتا اور فیمینیزم سے متعلق بحث ایک صحتمند بحث ہے۔

عمران خان نے جمہوریت کے معاملے میں 2 حوالوں سے تشویش کا اظہار کیا ہے: ایک آزاد میڈیا اور دوسرا منتخب امیدواروں کی ہارس ٹریڈنگ۔ انہیں قومی اسمبلی میں کچھ منتخب افراد کی کمی کا سامنا ہے۔ دوسری جانب میڈیا کو بھی چھڑی کا چھوٹا حصہ تھمایا جا رہا ہے۔

یہ مستقبل کے وزیرِ اعظم پر اپنے خیالات پر عمل کرنے کا دباؤ ڈالنے کا بہترین موقع ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 31 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024