• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

آسام میں شہریوں کی تعداد سے متعلق متنازع فہرست پر مودی مخالفین متحد

شائع August 1, 2018
مظاہرین مودی سرکار کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں — فوٹو، اے ایف پی
مظاہرین مودی سرکار کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں — فوٹو، اے ایف پی

بھارت کی ریاست آسام میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر بنائے جانے والے قومی رجسٹر برائے شہری (این آر سی) میں 40 لاکھ افراد کو شامل نہ کرنے پر ریاست میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے مل کر احتجاج کیا۔

آسام میں این آر سی کا مسودہ بھارت کی اس شمال مشرقی ریاست کے رہائشیوں کی دہائیوں سے جاری پُر تشدد کوششوں کا نتیجہ ہے، جو پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آنے والے تارکینِ وطن کے خلاف تھا۔

بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے شہریوں سے متعلق فہرستیں ترتیب دیں تھیں، جس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے نریندر مودی سرکار کے خلاف احتجاج شروع کیا اور اس حوالے سے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس کی وجہ سے بی جے پی کو آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیرِاعلیٰ ممتا بنرجی نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی حکومت اپنے ذاتی مفاد کے باعث لاکھو افراد کو بے گھر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: آسام کے 40 لاکھ باشندے بھارتی شہریت سے محروم

نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مغربی بنگال کی وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ حکمراں جماعت کا یہ عمل کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ بھارت میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور ملک میں لوگوں کی بہتری کے لیے یہ تبدیلی 2019 میں ضرور آئے گی۔

ان کی مقامی جماعت آل انڈیا ٹری نامول کانگریس کی سربراہی میں 7 جماعتوں کے اراکینِ پارلیمنٹ نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف بھارتی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج بھی کیا۔

مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر ’تقسیم کرکے حکومت کرو کی پالیسی کو ختم کرو‘ اور ’بھارتی اپنے ہی ملک میں غیر ملکی کیوں؟‘ کے نعرے درج تھے۔

واضح رہے کہ آسام میں مقامی افراد اور پڑوسی ممالک سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان دہائیوں سے کشیدگی برقرار ہے، اسی گشیدگی کی وجہ سے مقامی افراد الزام عائد کرتے ہیں کہ دیگر ممالک سے آنے والے افراد نے مقامی افراد کی زمینوں اور ملازمتوں پر قبضے کر لیے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: آسام میں ایک کروڑ 30 لاکھ شہریوں کی رجسٹریشن منسوخ

حکمراں جماعت کے صدر امیت شاہ نے اپوزیشن جماعتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت وہ واحد پارٹی ہے جس نے غیر قانونی نقل مکانی کے حوالے سے واضح موقف اپنایا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے والوں کی بھارت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

آسام میں آین آر سی فہرستوں میں اپنی شہریت دیکھنے کے لیے لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی رہیں، اس امکان کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جن افراد کے نام فہرستوں میں موجود نہیں ہیں انہیں ملک بدر کردیا جائے گا۔

این آر سی کی حتمی فہرستیں رواں برس دسمبر میں جاری کی جائیں گی تاہم انسانی حقوق کے اداروں کو خدشہ ہے کہ کئی افراد سے ان کی شہریت چھن جانے کا خطرہ ہے جن میں زیادہ تر مسلمان شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: آسام: قبائلی حملوں میں دیہاتی مسلمانوں کی ہلاکتیں

امریکی شہر نیویارک میں موجود انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آسام اپنی نسلی شناخت کو محفوظ کرنے کے لیے کئی عرصے سے کوششیں کر رہا ہے تاہم کئی لوگوں کو ریاست بدر کرنا اس کا جواب نہیں۔

اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام کو چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آسام میں مسلمانوں سمیت دیگر برادریوں کو ان کے حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن برائے تارکین وطن (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان ولیم اسپلینڈر نے بتایا کہ ان کے ادارے کو رجسٹریشن کے عمل پر خدشات ہیں اور اس کی نگرانی بھی کی جارہی ہے۔

یو این ایچ سی آر نے بھارتی حکومت سے اپیل کی ایسے افراد جو شہریت حاصل کرنے میں ناکام ہوجائیں، انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024