نئے پاکستان میں پرانا مسئلہ کشمیر
پاکستان کے حالیہ انتخابات میں تحریکِ انصاف کی جیت اور اس جیت پر عمران خان کی فتح کی تقریر سے جہاں ان کے مقلدین اس بات پر ایمان لے آئے ہیں کہ اب نیا پاکستان بن کر ہی رہے گا، وہاں بہت سارے قلم کار، تجزیہ نگار، اور سابقہ طور پر کسی حد تک غیر جانبدار دانشور بھی یہ ماننے لگے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔
بعضوں نے تو عمران خان کی فاتحانہ تقریر سن کر یہاں تک کہہ دیا کہ اگرکوئی کشمیر کا دہائیوں پرانا مسئلہ حل کرسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف عمران خان ہی ہے۔ بہت سارے کشمیریوں نے تو باقاعدہ اس پر ایک بیانیہ سازی بھی شروع کر دی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ سمجھا جائے کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی بات کیوں کی اور کیا واقعی ایسا ممکن ہے کہ عمران خان مسئلہ کشمیر حل کروا سکتے ہیں؟
اور اگر ایسا نہیں تو کشمیریوں کو اس بیانیے کو کیوں مسترد کرنا چاہیے، کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے کس کی طرف دیکھنا چاہیے، کیا مؤقف اختیار کرنا چاہیے اور کس لائحہ عمل کو اپنانا چاہیے؟
پڑھیے: ’بھارت! مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرو!‘
سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان سے لڑائی نہ چاہنا اور مسئلہ کشمیر کا حل چاہنا 2 مختلف خواہشات اور سیاسی بیانات ہیں۔ اس لیے لکھنے اور بولنے والوں خصوصاً کشمیری قلم کاروں، تجزیہ نگاروں اور مبصرین کو کسی بھی طرح کی رائے عامہ ہموار کرنے سے پہلے ان بیانات کا پسِ منظر سمجھ لینے کی زحمت کرنی چاہیے تھی۔
پاکستان اور ہندوستان اب دونوں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں اور بحیثیت رکن دونوں ممالک 3 چیزوں کے پابند ہیں۔ یہ پابند ہیں کہ (اپنے اپنے ملک سے) علیحدگی پسندی کا خاتمہ کریں اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں کی کسی صورت معاونت نہ کریں۔
یہ پابند ہیں کہ اپنے اپنے ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ کریں اور رکن ممالک میں انتہا پسندی کے پھیلاؤ میں مددگار نہ بنیں۔ اور یہ اس بات کے بھی پابند ہیں کہ یہ ایک تو اپنے اپنے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں اور دوسرا رکن ممالک کے ساتھ مل کر جہاں بھی دہشت گردی ہو اس کا خاتمہ کریں۔
اب نظریاتی طور پر ہی سہی، پر اگر ہندوستان بلوچستان کی علیحدگی اور پاکستان کشمیر کی "آزادی" کے لیے "کچھ بھی" کرتا ہے تو خدشہ ہے کہ یہ ممالک اپنی رکنیت کھو سکتے ہیں جو کہ کسی صورت کھونے والی چیز نہیں ہے۔ کیونکہ اگر چین نئی سپر پاور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شنگھائی تعاون تنظیم نئی "اقوام متحدہ" ہے اور کوئی بھی ملک اتنے اہم ادارے سے باہر نہیں بیٹھنا چاہے گا چاہے اس کی کسی دوسرے رکن ملک کے ساتھ کتنی ہی دیرینہ دشمنی کیوں نہ ہو۔
محققین کا خیال ہے کہ پاکستان اور ہندوستان چین کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو آنے والے وقت میں ایک طرف رکھ کر معاشی تعاون پر کام کریں گے اور پاکستان ہندوستان کو وسط ایشیائی منڈی تک راستہ دے گا۔ یہ عمران خان نہیں جو ہندوستان سے بہتر تعلقات کی بات کر رہے ہیں بلکہ دراصل ہندوستان سے بہتر تعلقات اس وقت پاکستان کے طاقتور اداروں کے حق میں ہیں، اور یقیناً ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہنا اور قائم کرنا پاکستان کو معاشی طور پر فائدہ دے سکتا ہے پر اس کو مسئلہ کشمیر کے حل کی کوشش قرار دینا اس مسئلے سے جڑے کروڑوں انسانوں کو ایک اور دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
مزید پڑھیے: کیا مسلح جدوجہد ہی مسئلہءِ کشمیر کا حل ہے؟
لہٰذا اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ عمران خان پاکستان کے وزیرِ اعظم ہوں یا صدر، یہ ان کے بس کی بات نہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے میں کسی بھی قسم کی پیش رفت کا باعث بن سکیں کیونکہ اگر پاکستان اور ہندوستان مذاکرات کے لیے تیار بھی ہو جاتے ہیں تو کم از کم 3 باتیں ایسی ہیں جن پر ڈیڈ لاک ہمیشہ کی طرح برقرار رہے گا۔ اوّل: کسی ثالث کی موجودگی اور غیر موجودگی پر۔ دوم: کشمیریوں کی نمائندگی ہونے یا نہ ہونے پر، اور سوم: دہشت گردی اور جہاد پر۔
ہندوستان چاہتا ہے کہ مذاکرات 2 طرفہ ہوں یعنی صرف ہندوستان اور پاکستان کے بیچ ہوں جبکہ پاکستان پہلے چاہتا تھا کہ مذاکرات میں امریکا ثالث بنے اور اب چاہتا ہے کہ چین یہ کردار ادا کرے۔
ہندوستان اپنے مؤقف کے دفاع میں شملہ معاہدے کا سہارا لیتا ہے اور پاکستان اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر منظور ہونے والی قراردادوں کا۔ جہاں تک بات کشمیریوں کی نمائندگی کی ہے تو پاکستان زیادہ سے زیادہ کسی بھی مذاکراتی عمل میں حریت کانفرنس کی شمولیت کی بات کر سکتا ہے لیکن ہندوستان ایسا نہیں چاہتا کیونکہ مؤخرالذکر کی نظر میں حریت کانفرنس پاکستان نواز گروہ ہے جو کہ کشمیر کی آزادی نہیں بلکہ پاکستان سے الحاق کے لیے سرگرم ہے۔
تیسرا نکتہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان کشمیر کی جدوجہدِ آزادی، جو کہ اس کی نظر میں پاکستان اسپانسرڈ دہشتگردی ہے، پر بات کیے بنا کشمیر پر کسی قسم کی پیشرفت کی طرف بڑھنے سے گریزاں ہے اور یہ بات پچھلے کئی سالوں کے مشاہدات سے واضح ہے۔ جبکہ انڈین حکام کے مطابق پاکستان 'باجوہ ڈاکٹرائن' پر چلتے ہوئے پھر سے 'بلیڈ انڈیا' پروگرام کے تحت کشمیر میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور 'آزاد کشمیر' سے مسلح افراد کو وادی میں اتارا جا رہا ہے۔
اس پسِ منظر میں امریکا اور ہندوستان کے تعلقات بھی شامل کر لیں۔ اگر چین نئی سپر پاور کے طور پر ابھر رہا ہے تو امریکہ اس کو روکنے کے لیے روس اور ہندوستان کو بطورِ ہتھیار استعمال کر رہا ہے، جس کا واضح ثبوت امریکا کا ہندوستان کے ساتھ جوہری معاہدہ ہے، جو بیک وقت پاکستان اور چین دونوں کے لیے تشویشناک ہے۔
ایسے تناظر میں مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی دشمنی ختم ہوگی جس کا مطلب جہاں ایک طرف برِصغیر میں امریکی اور چینی اسلحے کی تجارت کا خاتمہ ہے وہیں دوسری طرف چین اور ہندوستان کی دوستی کی شروعات بھی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا ہندوستان کے ذریعے چین کو روکنے میں ناکام ہوگیا، جو کہ اتنی آسانی سے ہونے والا نہیں۔
اس لیے حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاست کی خاطر پہلے سے گمراہ لوگوں کو مزید گمراہ نہ کیا جائے۔ کشمیریوں میں یہ بیانیہ کہ پاکستان میں ایک مسیحا آ گیا ہے جو ان کے مسئلے کو پلک جھپکتے ہی حل کر دے گا، عام کرنے کے بجائے انہیں باور کروایا جائے کہ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ان کی اپنی نمائندگی کا نہ ہونا ہے، اور کشمیریوں کی موجوگی کے بغیر پاکستان اور ہندوستان کے مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔
جانیے: آزاد کشمیر انتخابات: پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی غلطیاں
چنانچہ سب سے پہلی ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیری مسئلہ کشمیر کے حل کی ہر کوشش میں اپنی نمائندگی کو یقینی بنائیں اور ایسی نمائندگی جو کشمیر کے تمام حصوں سے عوامی حمایت یافتہ ہو۔ اس کا ایک مجوزہ طریقہ کار یہ ہے کہ آزاد کشمیر سے ایک نمائندہ ادارہ بنایا جائے جو یونین کونسل کی سطح سے لے کر تحصیل اور ضلع کی سطح اور پھر پورے آزاد کشمیر کی سطح تک عوامی ووٹ سے بنے۔
ایسا ہی ایک ادارہ جموں و کشمیر میں بنے اور ایک گلگت بلتستان میں۔ ان اداروں کے پاس کشمیر کے تینوں حصّوں سے اپنے اپنے حصّے کی نمائندگی کا حق ہو اور پھر ان تینوں اداروں کو ملا کر ایک قومی نمائندہ ادارہ بنایا جائے جو کہ ایک تو پاکستان اور ہندوستان سے مذاکرات کرے اور دوسرا ان کے بیچ ہونے والے مذاکرات میں پوری طرح شامل ہو اور کسی بھی فیصلے سے پہلے متنازعہ خطے کے تمام لوگوں کو اعتماد میں لے اور اگر عوامی اعتماد حاصل نہ ہو تو ایسے ہر فیصلے کو رد کر دے۔
اور جب تک ایسے نمائندہ ادارے کا قیام عمل میں نہیں آتا، تب تک کشمیر کے رابطے کے تمام راستے کھولے جائیں اور عوام کو آر پار آنے جانے کے ساتھ ساتھ کاروبار کی مکمل آزادی دی جائے۔
ساتھ ہی ساتھ پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں، اور ہندوستان جموں و کشمیر کی مقامی حکومتوں کو مکمل قانونی اور سول اختیارت دے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ مقامی حکومتیں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو کشمیر کے تمام حصّوں میں حالات کا جائزہ لینے اور رپوٹ کرنے کی اجازت دیں۔
کسی بھی مسئلے کا کوئی بھی حل سب کے لیے 100 فیصد قابلِ قبول نہیں ہوتا لیکن کشمیر کے مسئلے کا کوئی بھی حل کم از کم ان لوگوں کو ضرور قبول ہونا چاہیے جن کی زندگی اور موت اس مسئلے سے جڑی ہوئی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں