• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

56 کمپنیوں کے افسران کا تنخواہیں واپس کرنے پر آمادگی کا اظہار

شائع July 29, 2018

لاہور: پنجاب کی نگراں حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے سربراہان اور عہدیداران نے اپنے اداروں سے وصول کی گئی زائد تنخواہیں واپس کرنے پر آمادگی کا اظہار کردیا ہے۔

ڈان نیوز کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق صاف پانی کمپنی ساؤتھ کے وسیم اجمل 10 لاکھ 39 ہزار 500 روپے، قائداعظم سولر پاور کے افسر نجم احمد شاہ 9 لاکھ 20 ہزار روپے، پنجاب پاپولیشن انوویشن فنڈ کے جواد احمد قریشی 7 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں: صاف پانی کیس: مسلم لیگی رہنما جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پنجاب چیف سیکریٹری اکبر خان درانی نے عدالت عظمیٰ لاہور رجسٹری میں تین رکنی بینچ کو بتایا کہ کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران (سی ای اوز) نے زائد تنخواہیں واپس کرنے کے لیے 2 دن کی مہلت مانگی ہے۔

چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب صاف پانی کمپنی کے سی ای او کیپٹن (ر) محمد عثمان ماہانہ 10 لاکھ 30 ہزار روپے تنخواہ وصول کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں پانی کی قلت کی باتوں میں کوئی سچائی نہيں؟

چیف جسٹس نے تمام کمپنیوں کے سی ای اوز کو سمن جاری کرتے ہوئے ان افسران کی فہرست طلب کرلی جو 3 لاکھ سے زائد ماہانہ تنخواہ وصول کررہے ہیں۔

چیف سیکریٹری نے بینچ کو بتایا کہ کمپنیوں کے 346 سرکاری افسران کے نام قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیئے گئے ہیں اور نیب نے عدالتی حکم نامے کے تحت تفصیلات کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری نے ایک فہرست عدالت میں جمع کرائی جس میں وفاق اور پنجاب کے ان افسران کی تفصیلات موجود تھیں جو پبلک کمپنیوں سے ڈیپوٹیشن پر تھے۔

چیف جسٹس نے دیگر تین صوبوں سے متعلق رپورٹ پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’عوام کی صحت حکومتی ترجیح نہیں، شہباز شریف کو تصاویر چھپوانے کا زیادہ شوق ہے‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ افسران سے وصول کی جانے والی رقم بھاشا اور دیامر ڈیم کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’عوام کے پیسوں کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024