• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

تین جماعتیں،3 انتخابات، کس نے کیا کھویا، کیا پایا؟

شائع July 28, 2018
ایک دہائی قبل عمران خان قومی اسمبلی و حکومت کا حصہ نہیں تھے، اب نواز شریف منظر سے غائب ہیں—فائل فوٹو: ڈان
ایک دہائی قبل عمران خان قومی اسمبلی و حکومت کا حصہ نہیں تھے، اب نواز شریف منظر سے غائب ہیں—فائل فوٹو: ڈان

ملک میں 25 جولائی کو ہونے والے 11 ویں عام انتخابات کے غیر حتمی نتائج الیکشن کمیشن نے جاری کردیے ہیں۔

نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 115 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں صرف 28 جنرل، 6 مخصوص اور ایک اقلیتی نشست حاصل کرنے والی تحریک انصاف اب سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔

اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہی تحریک انصاف 2008 میں قومی اسمبلی کا حصہ ہی نہیں تھی، کیوں کہ اس وقت جنرل (ر) پرویز مشرف ملک کے صدر تھے، اسی وجہ سے دیگر جماعتوں کے ساتھ پی ٹی آئی نے بھی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

گزشتہ انتخابات میں تیسری بڑی اور 25 جولائی 2018 کے انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آنے والی تحریک انصاف پہلی بار 3 دہائیوں کے اندر اندر وفاق اور ایک سے زائد صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف 115 نشستوں کے ساتھ سرفہرست

اب تک کی صورتحال کے مطابق تحریک انصاف وفاق اور خیبر پختونخوا سمیت پنجاب میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے، تاہم وہ پنجاب میں حکومت بناتی ہے یا نہیں اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

اسی طرح 2008 کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کا درجہ حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی 25 جولائی 2018 کے انتخابات میں تیسرے نمبر پر آگئی۔

یعنی 10 سال قبل جو پوزیشن پیپلز پارٹی کی تھی اب وہی تحریک انصاف کی ہے۔

تین ماہ قبل تک پاکستان کے مرکز اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تن تنہا حکومت کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت 64 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوسری بڑی جماعت بن چکی ہے۔

2013 میں ن لیگ نے 126 جنرل، 35 مخصوص اور 6 اقلیتی نشستیں حاصل کرنے کے مجموعی طور پر 190 سیٹیں لے کر وفاق میں مضبوط حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی جماعت کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

چند سال قبل تک آصف زرداری ملک کے اہم ترین شخص تھے—فائل فوٹو: ڈان
چند سال قبل تک آصف زرداری ملک کے اہم ترین شخص تھے—فائل فوٹو: ڈان

مگر 25 جولائی کا سورج غروب ہوتے ہی وہ بھی اپنی پہلی پوزیشن گنوانے کے بعد دوسرے نمبر پر آگئی۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف پنجاب میں بھی حکومت بنائے گی؟

پاکستان میں 2008 سے 2018 کے درمیان ہونے والے تینوں انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ق) جو ایک دہائی قبل قومی اسمبلی میں ملک کی تیسری بڑی جماعت تھی وہ اب سکڑ کر 4 امیدواروں کی جماعت بن گئی ہے۔

اسی طرح ایک دہائی قبل قومی اسمبلی میں چوتھی بڑی جماعت رہنے والی پاکستان متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اب صرف 6 رکنی جماعت بن چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولنگ کے دن اصل مسئلہ کہاں پیش آیا؟

حیرانی کی بات تو یہ بھی ہے کہ جس طرح 2008 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ سمیت بلوچستان میں بھی مخلوط حکومت بنائی تھی، لیکن اگلے انتخابات تک وہ سکڑ کر ایک صوبے تک محدود رہی گئی۔

اسی طرح 2013 کے انتخابات کے بعد وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے والی مسلم لیگ (ن) اس وقت صرف ایک صوبے پنجاب تک محدود رہ گئی ہے۔

یوں 25 جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد وفاق، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آنے والی تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں ایک صوبے تک محدود ہوجائے گی یا پھر وہ اپنی پوزیشن کو برقرار رکھے گی، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

جس طرح 2008 کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری ملک کے اہم ترین فیصلہ ساز شخص بنے تھے، اسی طرح 2013 میں وہ حیثیت نواز شریف نے حاصل کی تھی اور اب یہ حیثیت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حصے میں آ چکی ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کے اقتدار اور طاقت کا توازن پیپلز پارٹی سے نواز لیگ کے راستے اب تحریک انصاف تک پہنچا ہے، تاہم وہ خود کو باقی دونوں جماعتوں سے کس طرح بہتر پوزیشن میں رکھتی ہے، اس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔

جہاں گزشتہ 10 سال کی جدوجہد کے بعد 25 جولائی 2018 کو جہاں تحریک انصاف نے دیگر جماعتوں کو شکست دے کر پہلی پوزیشن حاصل کی، وہیں کئی پارٹیاں سکڑ کر چند رکنی امیدواروں تک محدود رہ گئیں۔

ساتھ ہی 25 جولائی کے دن نے ماضی میں ملک کے وزیر اعظم رہنے والے شاہد خاقان عباسی اور یوسف رضا گیلانی جیسی شخصیات کو بھی ماضی کا قصہ بنا ڈالا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024