اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں، بطور ادارہ غلطیوں کو تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے بہت سے شعبوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی،شاید وہ سب کچھ نہیں کرسکا جو کرنا چاہتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام میں تبدیلی بتدریج آتی ہے، بعض اوقات قوانین میں تبدیلی کے باوجو دبہت سے نتائج حاصل نہیں کیےجاسکتے، بدقسمتی سے آج بھی عدالتی نظام میں برسوں پرانے طریقے رائج ہیں،آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایک پٹواری کی محتاجی برقرار ہے۔
چیف جسٹس نے پانی کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں پانی کی قلت اتنی شدید ہوسکتی ہے کہ ہمارا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔
پاکستان میں پانی کا مسئلہ مجرمانہ غفلت ہے اور یہ ملکی نہیں غیر ملکی سازش ہے کہ پاکستان کو ویسے کمزور نہیں کیا جاسکتا تو اسے پانی کے حوالے سے کمزور کردیا جائے تاکہ یہ زمین پر موجود ہی نہ رہ سکے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ڈیمز بنانا ناگزیر ہے، اس کے لیے جو کرسکتے ہیں وہ کریں، یہ آپ کے بچوں کا قرض ہے، لوگ اپنے بچوں کے لیے وراثت چھوڑ کر جاتے ہیں لیکن ہم اپنے بچوں کے لیے ایک لاکھ 17 ہزار روپے قرض چھوڑ کر جارہے ہیں، کون سی قومیں ہیں جو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے قرض چھوڑ کر جاتی ہیں؟
مزید پڑھیں: ’ہسپتالوں میں ادوایات نہیں، افسر عیاشی کر رہے ہیں‘
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ہم نے بڑے ہونے کہ کیا فریضے نبھائیں، ہمارے بڑوں نے بہتر پاکستان چھوڑا تھا، آج ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ رہے ہیں، آج ہمارا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہونا چاہیئے کہ پاکستان ہمارا ملک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں، یہ ملک مفت یا تحفے میں نہیں ملا بلکہ جدوجہد کر کے ملا ہے، یہ ملک آپ کی ماں ہے لیکن ہم نے اس کی کیا خدمت کی؟ بے ایمانی، کرپشن، اپنے مقاصد، اپنی ذات، گاڑیاں، بینک اکاؤنٹس بھرنے کے علاوہ ہم اپنی قوم اور آنے والی نسل کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے ہمیں آنے والی نسل کے لیے قربانیاں دینا پڑیں گی اور منصوبہ بندی کرنا پڑے گی۔
اس موقع پر انہوں نے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی خدمت آپ پر لازم ہیں، صرف پاکستانی بن کر سوچیں تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
انصاف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انصاف کی تقسیم عام نوکری نہیں ہے، اسے عام نوکری کی طرح نہ لیا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں لوگوں کی خواہش کے مطابق اپنا گھر ٹھیک نہیں کر سکا، مجھے اسے تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی قوانین میں ترمیم کی اجازت نہیں، اس کے بغیر ضابطے کے قانون کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا، کئی قوانین 19 ویں صدی کے ہیں جنہیں تبدیل نہیں کیا گیا، آج بھی پٹواری کی زبان پر اراضی منتقل ہوتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضابطے کا قانون تب تک فائدہ نہیں دے گا جب تک ججز میں انصاف کا جذبہ نہیں ہو گا، مقدمات کو خراب کرنے میں ججز کا بھی ہاتھ ہے، سب کچھ کتاب میں لکھا ہے لیکن کتنے ججز کتاب پڑھتے ہیں یہ وہی جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ میں ججز کی غلطی ہوتی ہے لیکن اس غلطی کو ہائیکورٹ میں درست نہیں کیا جاتا، میں کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے اس کام کو عبادت سمجھ کر کریں، اسے اپنا رزق سمجھ کر کریں تو آپ کو اس کا پھل ملے گا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے ملک میں پانی کی قلت کا نوٹس لے لیا
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تربیت کا فرق ہے، میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ بطور چیف جسٹس پاکستان مجھے پورا قانون نہیں آتا اور میں سیکھنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جس دن قانون کا اطلاق شروع ہوجائے گا اس دن یہ نظام درست ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بطور ادارہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا بھی اتنا ضروری ہے جتنا انصاف کی فراہمی ہے، غلطیاں ہم سے بھی ہوسکتی ہیں لیکن آپ کے سپریم کورٹ کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہمیں بتائیں کہ غلطی کہاں ہوئی ہے، ہم اسے ٹھیک کرنے کو تیار ہیں۔