پولنگ کے دن اصل مسئلہ کہاں پیش آیا؟
آپ کو یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ الیکشن کمیشن پاکستان کی سخت محنت کے باوجود بھی 25 جولائی کو شکوک و شبہات کی کالی گھٹائیں چھائی رہیں۔ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں، مقامی اور بین الاقوامی میڈیا تبصرہ نگاروں کے درمیان تقریباً اتفاق رائے دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں قبل از انتخابات ماحول شفاف نہیں تھا۔ انتخابات کا جائزہ لینے والی یورپی ٹیم نے بھی انتخابات کے بعد اپنے ابتدائی بیان میں قبل از انتخابات کے وقت کے حوالے سے شکایات کی تصدیق کی ہے۔
پاکستان میں قبل از انتخابات اور بعد از انتخابات کے وقتوں کی اہمیت کے باجود، پولنگ ڈے بھی کئی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس دن کو 5 بالکل مختلف مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلا مرحلہ
پہلا مرحلہ ہے ووٹ ڈالنے کا، جو بنا رُکے 9 گھنٹوں تک جاری رہتا ہے۔ اس مرتبہ ووٹنگ کا دورانیہ 10 گھنٹوں تک بڑھا دیا گیا تھا۔ ترقی پذیر ملکوں میں الیکٹرانک میڈیا کی آمد سے قبل بیلٹ باکسز کو چھیننا اور بھرنا دھاندلی کا ایک سب سے عام طریقہ ہوا کرتا تھا۔
قبل از انتخابات کے حوالے سے منفی تاثرات کے باوجود 25 جولائی کو پولنگ کا عمل زبردست حد تک پُرسکون انداز میں جاری رہا اور قانون یا اصولوں کی خلاف ورزی کے ایک آدھ ہی واقعات سامنے آئے۔ ووٹرز کی نقل و حرکت اور پولنگ اسٹاف اور پولنگ ایجنٹس کی جانب سے اپنے فرائض کافی نظم و ضبط اور پُرامن طریقے سے انجام دیے گئے اور کم از کم اس کا کسی حد تک سہرا پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر مسلح افواج کے اہلکاروں کی موجودگی کو جاسکتا ہے۔
پولنگ اسٹاف اور فوج و پولیس کے سیکیورٹی اہلکاروں نے اکثر طور پر شائستگی کا مظاہرہ کیا اور عمر رسیدہ افراد اور معذور افراد کو سہولت بھی فراہم کرتے رہے۔ کئی پولنگ اسٹیشنز پر تو پولنگ کے وقت سے قبل ہی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں، جس سے لوگوں کے درمیان اپنے حق رائے دہی کے استعمال کو لے کر جوش و خروش کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ وقت ختم ہونے کو تھا مگر ایک بار پھر قطار بن گئی، یوں لگا کہ قطار میں لگے کئی ووٹر 6 بجے سے پہلے اپنا ووٹ شاید نہ ڈال پائیں۔
پڑھیے: انتخابات 2018ء: بین الاقوامی مبصرین کا امتحان
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹہ اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا، جسے الیکشن کمیشن پاکستان نے مسترد کردیا۔ تاہم، الیکشن کمیشن نے پریزائڈنگ افسران کو ہدایات بھیجیں کہ جو ووٹرز پولنگ اسٹیشن کے حدود سے باہر بھی موجود ہیں انہیں بھی ووٹ کاسٹ کرنے دیا جائے۔ اکثر و بیشتر اس ہدایت پر عمل ہوتا بھی دکھائی دیتا ہے۔
پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوجی اہلکاروں کی موجودگی، کبھی کبھار ان کے افسران کی جانب سے دوروں اور آئی ایس پی آر ٹیم کی جانب سے فلم بندی اور فوٹوگرافی کے باجود، ظاہری طور پر ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا کہ جس میں فوجی اہلکار نے پولنگ اسٹاف کو کسی قسم کی غیرقانونی ہدایت دی ہو۔
انتہائی گرم اور مرطوب موسم کی وجہ سے پولنگ اسٹاف کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں کافی دشواری پیش آئی۔ جن کمروں میں پولنگ کا عمل جاری تھا ان میں کافی رش ہوگیا جس کے سبب حبس میں اضافہ ہوگیا۔ اب ایسی حالت میں جہاں 10 سے 15 منٹ تک کھڑے ووٹرز بھی انتہائی تھکن کا شکار ہوگئے تھے وہیں ان حالات میں مرد و خواتین پولنگ اسٹاف اور موٹی وردی پہنے سیکیورٹی اسٹاف کی 12 گھنٹوں سے زائد وقت گزارنا نہایت قابلِ تحسین ہے۔ حبس اور گرم موسم کی وجہ سے پولنگ اسٹاف میں شامل چند لوگوں کے بے ہوش ہونے بلکہ انتقال کرجانے کی بھی میڈیا پر خبریں سامنے آئیں۔
دوسرا مرحلہ
ووٹوں کی گنتی کا عمل پولنگ کے دن کی سرگرمیوں کا دوسرا اہم مرحلہ ہوتا ہے اور قانون کے مطابق یہ عمل امیدواروں یا پھر ان کے ایجنٹس کی موجودگی میں کرنا ہوتا ہے۔ گنتی کا عمل ختم ہونے پر پریزائیڈنگ افسر فارم 45 رزلٹ آف دی کاؤنٹ اور فارم 46 بیلٹ پیپر اکاؤنٹ تیار کرتا ہے اور پھر ان پر اپنی اور سینئر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر کی دستخط اور انگوٹھے کا نشان ثبط کرنے کے بعد وہاں موجود امیدواروں یا پھر ان کے ایجنٹس کو ان فارمز پر دستخط کرنے کے لیے کہتا ہے۔ دستخط اور تصدیقی مہر کے ساتھ تیار شدہ فارم 45 اور 46 کی ایک نقل ہر امیدوار یا اس کے ایجنٹ اور ایک دوسری نقل پولنگ اسٹیشن میں کسی ایسی جگہ چسپاں کردی جاتی ہے جہاں عام لوگ نتیجہ جان سکیں۔
کئی سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں نے شکایت کی ہے کہ ان کے پولنگ ایجنٹس کو ووٹوں کی گنتی کے وقت باہر نکال دیا گیا اور یہ کہ انہیں فارمز 45 اور 46 کی نقول نہیں دی گئیں۔ الیکشن کمیشن پاکستان نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو اس حوالے سے شواہد فراہم کا کہا تاکہ مناسب اقدامات کیے جاسکیں۔ چونکہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے شکایات سامنے رکھ دی ہیں لہٰذا ان شکایات پر سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔
پڑھیے: ہمیں نگراں حکومت کی ضرورت کیوں نہیں ہے
تیسرا مرحلہ
تیسرا مرحلہ ہے انتخابی نتیجے کی پولنگ اسٹیشن سے متعلقہ ریٹرنگ افسران تک پہنچانا۔ یہیں پر معاملہ بگڑتا دکھائی دیتا ہے۔ چند مسائل کو خود الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا۔ اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن کے لیے نادرا کی جانب سے تیار کردہ اسمارٹ فونز کے ذریعے کام کرنے والے ریزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) استعمال میں لانے کے تھوڑی ہی دیر بعد بظاہر طور پر خراب ہوگیا۔ لگتا ہے کہ سسٹم کی آزمائش بہتر انداز میں نہیں کی گئی تھی۔
مسئلہ صرف آر ٹی ایس کی خرابی تک محدود نہیں تھا بلکہ اطلاعات کے مطابق کئی پریزائیڈنگ افسران اوریجنل فارم 45 اور 46 جمع کروانے کے لیے ریٹرننگ افسران ناقابِل توجیہہ طور پر کافی دیر بعد پہنچے جس سے یہ شبہہ پیدا ہوا کہ انہیں گنتی کے نتائج میں رد و بدل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ صرف مکمل تحقیقات اور فارمز 45 کی فارینسک آڈٹ کے ذریعے ہی اصل مسائل تک پہنچا جاسکتا ہے۔
چوتھا مرحلہ
چوتھے مرحلے میں ہر حلقے کے پریزائیڈنگ افسران سے موصول ہونے والے فارمز 45 کی بنیاد پر ریٹرننگ افسران کی جانب سے نتائج کو یکجا کیا جاتا ہے۔ ہر ریٹرننگ افسر کو ایک لیپ ٹاپ، آئی ٹی کے 2 ماہرین اور رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم آر ایم ایس (جو الیکشن کمیشن پاکستان نے خود ہی تخلیق کیا تھا) کے ذریعے نتائج کی پراسسنگ کے لیے ایک کمپیوٹر ایپلیکیشن فراہم کی گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق آر ایم ایس ٹھیک کام کر رہا تھا لیکن چونکہ فارم 45 دیر سے موصول ہوئے اس لیے آر ایم ایس کے ذریعے نتائج کو یکجا کرنے کا عمل سست روی کا شکار ہوا۔ پریزائیڈنگ افسران کے فراہم کردہ نتائج سے آر ایم ایس کو فارم 47 پروویزنل کونسولیڈیٹڈ اسٹیٹمینٹ آف ریزلٹس آف دی کاؤنٹ اور فارم 48 کونسولیڈیٹڈ اسٹیٹمینٹ آف ریزلٹس آف دی کاؤنٹ مرتب (جنریٹ) کرنے کا کام انجام دینا تھا۔
پانچواں مرحلہ
پولنگ کے دن کا آخری مرحلہ تھا نتائج کو ریٹرننگ افسران سے الیکشن کمیشن پاکستان تک پہنچانے کا عمل۔ چونکہ الیکشن کمیشن پاکستان کو 99 فیصد نتائج کا اعلان کرنے میں تقریباً 48 گھنٹے لگے اس لیے یہ واضح نہیں کہ کس مرحلے میں الیکشن کے دن کی کارروائیاں مسائل سے دوچار ہوئیں۔ جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے کہ صرف مکمل تحقیقات ہی اصل مسئلے کی نشاندہی کرسکتی ہے اور اس کے بعد ہی ذمہ داروں تک پہنچا جاسکتا ہے اور ان سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور عوام کے خدشات کو دور کیا جاسکتا ہے۔
یہ مضمون 28 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔