طیفا اِن ٹربل: بارہ مصالحے کی چاٹ تو بن سکتی ہے، فلم نہیں!
پاکستانی فلمی صنعت تکنیکی لحاظ سے بہتر ہو رہی ہے، جس کی تازہ ترین مثال کل ریلیز ہونے والی فلم ’طیفا اِن ٹربل‘ ہے۔ تاہم اس فلم میں سوائے کہانی کے سب کچھ ہے، یہی اس فلم کی خامی اور خوبی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بات کے امکان زیادہ ہیں کہ رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں ریلیز ہونے والی فلموں میں طیفا ان ٹربل کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں مگر پاکستانی سینما کے لیے جن کوششوں کی ضرورت ہے یہ وہ کوشش نہیں ہے۔
پاکستان میں جس فلم ساز کو باکس آفس کی پرواہ ہوتی ہے وہ فلم کا معیار گرا دیتا ہے، جس کو حقیقی طور پر اچھی فلم بنانے کا جنون ہوتا ہے اسے باکس آفس قبول نہیں کرتا، اس کا مطلب ہے کہ مسئلہ صرف پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ ہی نہیں ہے، اس میں کنفیوژن کو بڑھاوا دینے میں فلم کے ناظرین بھی برابر کے شریک ہیں۔ اسی فلم کا ایک ڈائیلاگ ہے ’لڑکی میں مصالحے پورے ہیں‘۔ بالکل اسی طرح فلم میں مصالحے پورے ہیں، لہٰذا باکس آفس پر ضرور کامیابی حاصل کرے گی۔
کہانی و مکالمے
فلم میں کوئی کہانی تو ہے نہیں، مرکزی خیال کا کینوس زبردستی پاکستان سے پولینڈ پہنچا دیا گیا۔ لاہور کا ایک مقامی غنڈہ جو نیک دل ہے، سرمایہ داروں سے وصولی کا کام کرتا ہے، بٹ نامی لاہور کا ایک مقامی سرمایہ دار اس غنڈے کو پولینڈ بھیجتا ہے تاکہ وہ اس کے بچپن کے دوست کی بیٹی کو ’چُک‘ کر لے آئے کیونکہ اس کے بیٹے کے لیے اس کے دوست نے رشتہ دینے سے انکار کردیا ہے۔
پڑھیے: 'طیفا اِن ٹربل': علی ظفر کی پہلی پاکستانی فلم
دوسری طرف پولینڈ میں لڑکی کا باپ تجارتی فائدے کے لیے بیٹی کی شادی اپنے کاروباری دوست باجوہ سے کروانا چاہتا ہے جبکہ بیٹی ایک گورے پر فدا ہے۔ فلم کی ابتداء میں پہلے منظر سے بٹ صاحب کا بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ بھاگتا نظر آرہا ہے، اس کے فوری بعد کے مناظر میں علی ظفر اپنی اینٹری سے بھاگتے دکھائی دے رہے ہیں، پولینڈ میں فلم کی ہیروئن عنایا کی آمد و برخاست زیادہ تر بھی بھاگ دوڑ سے پیوست رہتی ہے۔
پولینڈ اور پھر پاکستان ہر جگہ ہر کوئی بھاگتا نظر آرہا ہے، اسی بھاگنے دوڑنے کے دوران کہیں کہیں رُک کر کچھ مکالمے بھی ہوجاتے ہیں جو نہایت عمدہ ہیں کیونکہ لاہور شہر کے طرزِ گفتگو سے جو واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ لاہور میں گفتگو کے دوران بولی جانے والی گفتگو میں ’جگتیں‘ کتنی اہم ہوتی ہیں اور مزہ دیتی ہیں۔ ان جگتوں کا فلم میں بہترین طریقے سے استعمال کیا گیا۔
فلم کی ہیروئن کا پہلے گورے کی محبت میں گھر سے بھاگنا پھر کالے کی محبت میں پولینڈ سے بھاگنا، پھر پولینڈ کے پوش علاقے کی سیکورٹی کے مناظر، پولینڈ میں پیدا ہونے والی لڑکی کا صاف اردو لہجہ، پاکستان آنے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہ ہونا، سردی لگنے پر لڑکے کا اپنی جیکٹ اتار کر لڑکی کو دے دینا، لاہور کے پلیٹ فارم پر علی ظفر کا بے ہوش ہونا، پھر اچانک ٹرین تک پہنچ جانا (ٹرین کے اندر کے مناظر کے لحاظ سے وہ ٹرین گوجرانوالہ کراس کرچکی ہوتی) اور کئی ایسی فضول مناظر، جس سے فلم میں اکتاہٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔
پڑھیے: علی ظفر ’طیفا ان ٹربل‘ کے غنڈے یا ہیرو؟
اب بتائیے کچھ سمجھ آیا، کہانی نویس کو یہ پتہ ہی نہیں کہ اس دوڑتی ہوئی فلم کو روکنا کہاں ہے؟ علی ظفر اور ان کے بھائی نے فلم کے ہدایت کار احسن رحیم کے ساتھ مل کر یہ کہانی لکھی ہے۔ فلم دیکھ کر یہ اندازہ ہو بھی جاتا ہے۔ یہ فلم جہاں آدھی ہوئی تھی، وہی ختم کردی جاتی تو آج اس کے بارے میں مختلف بات ہوتی، اس لیے کہتے ہیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ احسن رحیم اس فلم کے گانے گاتے تو کیسا لگتا بالکل اسی طرح فلم کی کہانی کے ساتھ علی ظفر نے سلوک کیا ہے۔
فلم سازی
پاکستان میں علی ظفر کی بطور فلم ساز یہ پہلی فلم ہے۔ فلم کی لوکیشنز، کاسٹیومیز، گرافکس، سینماٹوگرافی، کیمرہ ورک سب کچھ بہت عمدہ ہے۔ انگریزی جملوں کے سب ٹائٹلز اردو میں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ چلو کسی نے تو اردو فلم بین کا خیال کیا۔
گرافکس کا کام بہت ہی عمدہ ہے۔ مثال کے طور پر فلم کے ایک سین میں ہیرو ہیروئن ٹرین سے باہر گرتے ہیں، ٹرین پل پر سے گزر رہی ہوتی ہے، اندازہ ہے کہ یہ کوئی جہلم وغیرہ کے قریب کا کوئی علاقہ ہوگا اور اس پُل کے نیچے دریا بہہ رہا ہے۔ لیکن اب اس دریا کا پانی اتنا شفاف اور نیلاہٹ بھرا دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے چھلانگ جہلم کے قریب کسی دریا میں نہیں بلکہ پولینڈ کے کسی دریا میں ماری ہے۔
کمال ہے، اس کام کی داد دینا ہوگی (یہ طنز نہیں ہے، واقعی تعریف ہے)۔ پولینڈ جیسے دور دراز ملک میں فلم شوٹ کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا۔ اس عمدہ اقدام کے لیے علی ظفر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکرین پر ان کی فلم کی انفرادیت کی ایک وجہ لینڈ اسکیپ نیا ہونا بھی ہے۔ پھر علی ظفر نے یش راج فلم کے ساتھ مل کر اس فلم کو 24 ملکوں میں بھی ریلیز کیا ہے جو باکس آفس کے تناظر میں اچھی حکمتِ عملی ہے۔ انہیں مالی لحاظ سے نقصان کے خطرات کم ہی نظر آرہے ہیں۔
ہدایت کاری
احسن رحیم کی فلم کو دیکھنے کے لیے وہ تمام لوگ سینماؤں تک آئیں گے یا آئے ہوں گے، جنہوں نے 90ء کی دہائی میں پاکستانی پوپ بینڈ ڈاکٹر بلا گروپ کے گانوں سے لے کر موجودہ دور کی ایک معروف سیلولر کمپنی کے اشتہاروں تک کا سارا کام دیکھا ہے۔
پڑھیے: ’طیفا ان ٹربل‘ کی ریلیز، علی ظفر کے خلاف احتجاج
فلم کے فریمز، تکنیک، انداز، طور اطوار اچھے تھے لیکن اس میں کچھ نیا نہیں تھا۔ اس فلم میں صرف اور صرف احسن رحیم نے اپنے کام کو دہرایا ہے۔ اگر آپ کو علی ظفر کا ایک گانا ’آگ‘ یاد ہو، جس کی ویڈیو بھی احسن رحیم نے بنائی تھی تو درحقیقت ’طیفااِن ٹربل‘ اس میوزک ویڈیو کی فلمی شکل ہے اور کچھ بھی نہیں۔ ایک فلم ہدایت کار کے طور پر احسن رحیم نے بہت مایوس کیا، کم ازکم فلم میں کچھ تو نیا کرتے جس سے ان کے بنائے ہوئے اشتہارات اور میوزک ویڈیوز یاد نہ آتے۔
موسیقی
علی ظفر کی فنی زندگی میں سب سے مضبوط پہلو موسیقی ہے، اس فلم پر بھی وہ پہلو غالب رہا۔ 6 گانے تھے، اچھے رہے، علی ظفر کے ساتھ ساتھ آئمہ بیگ نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔
گیتوں کی شاعری اور بہتر ہوسکتی تھی اگر علی ظفر خود شاعری کرنے کے بجائے کسی متعلقہ شعبے کے ہنرمند کو موقع دیتے۔ موسیقی ترتیب دینے میں دانیال ظفر اور شانی ارشد نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ بالخصوص فلم کے بیگ گراؤنڈ میوزک پر شانی ارشد حاوی رہے، جنہوں نے بہت عمدہ موسیقی ترتیب دی۔
اداکاری
بالکل سیدھی بات کی جائے تو علی ظفر نے فلم کا فوکس اپنے اوپر رکھنے کی کوشش کی۔ وہ بہت سارے مناظر میں متاثر کرنے میں کامیاب بھی رہے، بالخصوص ایکشن سینز میں، لیکن اس کے باوجود دیگر اداکاروں میں جنہوں نے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ان میں سرِ فہرست فیصل قریشی، محمود اسلم، مرحوم احمد، اسما عباس اور سیمی راحیل ہیں۔
جاوید شیخ کی اداکاری وہی ہے، جو اس سال ریلیز ہونے والی دیگر فلموں میں تھی۔ یکسانیت کا شکار اداکاری سے وہ متاثرکرنے میں ناکام رہے۔ نیئر اعجاز باصلاحیت اداکار ہیں، ان کو اس فلم میں ضایع کیا گیا۔ فلم کی ہیروئن مایا علی کو شاید نہیں پتہ کہ فلم کے پردے اور ٹیلی وژن کی اسکرین پر اداکاری، جذبات و تاثرات کے تناظر میں فرق ہوتا ہے مگر یہ فرق سمجھانے کا کام ہدایت کار کا تھا۔
نتیجہ
آپ ایک سو برس تک بھی ایسی فلمیں بناتے رہیں تو بھی پاکستانی فلمی صنعت کا کچھ بھلا نہیں ہونے والا، کیونکہ باکس آفس کی کمائی صرف سب کچھ نہیں ہوتی۔ ایک ایسی فلمی صنعت جو دم توڑ رہی ہے، اس کو واپس لانے کے لیے کچھ سنجیدہ ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، ہمارے اکثر فلم ساز وہ نبھانے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں، وجہ صرف اور صرف رویہ ہے۔
وہ کچھ اور نہیں کرسکتے تو صرف اتنا کرلیں کہ جس کا جو کام ہے، اس کام کو اسے ہی کرنے دیں۔ بہت سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ پاکستان میں بغیر کہانی کے فلم بنانے کا رواج چل نکلا ہے، یہ فلم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
لہٰذا یہی کہنا بہتر ہے کہ طیفا ان ٹربل بارہ مصالحے کی چاٹ تو بن سکتی ہے، فلم نہیں!