ایم ایم اے کو کراچی سے بڑی کامیابی کی اُمیدیں
45 سالہ راشد حسن کے لیے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات 1993 سے اب تک منعقد ہونے والے تمام عام انتخابات سے مختلف نہیں، جب انہوں نے اپنا پہلا ووٹ ڈالا تھا۔
وہ ایک اسکول کے انتظامی امور سنبھالتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ سیاسی تنظیم جماعت اسلامی ہے، جو اب متحدہ مجلس عمل کا حصہ ہے، جسے کراچی میں سیاسی مخالف ایم کیو ایم کی موجودگی میں 1993 سے 2013 تک انتخابات میں جیتنے کا موقع نہیں ملا۔
راشد حسن اور ان کے ہم خیال 1993 سے اب تک ایسے امیدواروں کو ووٹ دیتے آئے ہیں جن کا دامن بے داغ ہو، چاہے ان کے جیتنے کا امکان محدود ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: ‘کراچی! اس بار ایم ایم اے’
جب ان سے پوچھا گیا کہ اب جبکہ 2018 میں ایم کیو ایم تقسیم کا شکار ہے تو کیا مذہبی جماعتوں پر مشتمل ’اتحاد متحدہ مجلس عمل‘ (ایم ایم اے) 25 جولائی کو انتخابات میں بہتر نتائج حاصل کرپائے گی؟
اس پر ناظم آباد میں قائم جماعت اسلامی کے مرکز ادارہ نورِ حق میں موجود دیگر اراکین کچھ خاص پر جوش نظر نہیں آئے۔
تاہم قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-239 (کورنگی-1) سے جمیعت علمائے اسلام (جے یو پی) کے امیدوار محمد حلیم خان غوری نے ڈان کو بتایا کہ اس مرتبہ ہمارے پاس الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کا اچھا موقع موجود ہے۔
یہ بھی دیکھیں: کراچی میں متحدہ مجلس عمل کا سیاسی طاقت کا مظاہرہ
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مہاجر‘ لفظ پر دیا جانے والا ووٹ تقسیم ہوچکا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان میں کئی دھڑے وجود میں آچکے ہیں، لیکن جے یو پی صرف اسی وجہ سے پرامید نہیں، اس علاقے میں ایک طبقہ الطاف حسین کی سربراہی میں ایم کیو ایم بننے سے قبل بھی جے یو پی کی حمایت کرتا رہا ہے۔
واضح رہے کہ عبدالمصطفیٰ الازہری، جے یو پی کے پلیٹ فارم سے اس وقت رکن قومی اسمبلی بنے تھے جب علامہ شاہ احمد نورانی تنظیم کی سربراہی کررہے تھے، بعد ازاں پرویز مشرف دور میں انہیں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کا سربراہ بھی نامزد کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی نے 6 جماعتوں پر مشتمل اس اتحاد کی اپنی وفات تک سربراہی کی، بعد ازاں 2003 میں اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب سے قبل دل کا دورہ پڑنے کے باعث ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: متحدہ مجلس عمل بحال: مولانا فضل الرحمٰن صدر منتخب
اس کے علاوہ متحدہ مجلس عمل کے جیتنے میں یہ پہلو بھی نمایاں ہے کہ اس میں تمام مکتبہ فکر کی مذہبی جماعتیں شامل ہیں.
اس میں مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی جیسے دیو بندی مکتبہ فکر، جمعیت علمائے پاکستان، جیسے بریلوی مکتبہ فکر، اسلامی تحریک پاکستان جیسے اہل تشیع برادری کے نمائندہ اور اہل حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کے لیے جمیعت اہل حدیث موجود ہے۔
اس ضمن میں جب سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس-144 سے ایم ایم اے کے امیدوار اور جمعت علمائے اسلام (ف) کے رکن قاری عثمان سے پوچھا گیا کہ کیا ایم ایم اے 25 جولائی 2018 کو 2002 کی تاریخ دہرائے گی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ انشا اللہ اس مرتبہ ایم ایم اے اس سے زیادہ دگنے نتائج حاصل کرے گی اور قومی اسمبلی کی 10 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 12 سے 13 نشستیں نکال لے گی۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ مجلسِ عمل نے 12 نکاتی انتخابی منشور پیش کردیا
دوسری جانب متحدہ مجلس عمل کے لیے میدان اتنا آسان بھی نظر نہیں آرہا کیوں کہ حال ہی میں ابھرنے والی مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان انتخابات میں ایم ایم اے کی اچھی مد مقابل ثابت ہوسکتی ہے۔
ڈان اخبار میں 17 جولائی 2018 کو شائع ہونے والی مذکورہ رپورٹ کی مزید تفصیلات پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔