ذوالفقار مرزا کے باعث بدین کا سیاسی منظرنامہ تبدیل
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے خلاف سندھ میں نئے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ذوالفقار مرزا نے جب بھی اپنے حلقے کا دورہ کیا تو لوگوں نے ان کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا، کیونکہ وہاں پر عوام ان میں اپنا محافظ دیکھتے ہیں۔
ڈان میں شائع مضمون کے مطابق آئندہ انتخابات کے لیے ذوالفقار مرزا نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بدین کے ایک چھوٹے گاؤں کا دورہ کرنا تھا، اور انہی کے انتظار میں کھڑے ایک حامی متھن خاصخیلی کہتے ہیں کہ ذوالفقار مرزا ہمارے لیے ایک بہادر آدمی ہیں، اور صرف انہی میں ’کسی‘ کے خلاف بولنے کی ہمت و حوصلہ ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سندھ میں مخلتف سیاسی جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار ہیں، جس کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ یہ ان کے مطلوبہ ووٹ کی تعداد کو کم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
55 سالہ متھن خاصخیلی پیپلز پارٹی سے اس کے ابتدائی دور سے وابستہ تھے، تاہم ذوالفقار مرزا کی جانب سے پی پی پی سے راستے جدا کرنے کے بعد متھن خاصخیلی نے بھی اپنی راہیں بدلنے کا فیصلہ کیا اور کہتے ہیں کہ ’میں ذوالفقار مرزا کے ساتھ ہوں‘۔ ان کے ساتھ ساتھ علاقے میں موجود کئی افراد نے پی پی پی کو خیرباد کہتے ہوئے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ساتھ ہولیے۔
مزید پڑھیں: جی ڈی اے کا پیپلز پارٹی کے گڑھ سے انتخابی جلسوں کا آغاز
2013 تک آئل کی دولت سے مالا مال سندھ کا ساحلی علاقہ بدین پی پی پی کا گڑھ رہا۔ ذوالفقار مرزا نے 2011 میں صوبائی وزارتِ داخلہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ ان کے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ساتھ کراچی کی پیچیدہ صورتحال پر اختلافات سامنے آئے تھے۔
ذوالفقار مرزا کا تعلق بدین سے نہیں بلکہ وہ حیدر آباد کی مرزا برادری اور ان کی اہلیہ حیدرآباد کی قاضی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔
ذوالفقار مرزا کا کارروبار کے سلسلے میں بدین 1980 کی دہائی میں پہنچے تھے، اور یہاں انہوں نے اپنی شگر مل کی بنیاد رکھی تھی جس کے بعد وہ یہیں منتقل ہوگئے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب بدین سے پیپلز پارٹی کے پرانے ساتھی اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے پی پی پی کے لیے اس خالی جگہ کو پُر کیا، 1993 کے انتخابات میں انہوں نے بینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا اور جیت کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: ذوالفقار مرزا کا فریال تالپور کے خاوند کے خلاف الیکشن میں شرکت کا اعلان
اس کے بعد سے ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ فہمیدہ مرزا بدین میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مضبوط ترین امیدوار ثابت ہوئے جس کی وجہ سے بدین سندھ میں پیپلز پارٹی کا ایک گڑھ سمجھا جاتا رہا۔
مرزا خاندان کے بدین میں اثر و رسوخ کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ انتخابات کے دوران اس علاقے میں اپنی توجہ کم رکھی، تاہم 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں اپنے پرانے گڑھ میں شکست کے بعد یہ پریشانی کا شکار ہے۔
جب ایک رپورٹر نے ذوالفقار مرزا سے سوال کیا کہ کیا کبھی آپ نے اپنی زندگی میں سوچا تھا کہ آپ پی پی پی کے خلاف الیکشن میں حصہ لیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ پیپلز پارٹی میری پہلی اور آخری سیاسی جماعت ہوگی کیونکہ میں شہید بی بی (بینظیر بھٹو) کے بغیر سیاست کرنے کا کبھی نہیں سوچا۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ایک وقت میں اتحاد تھا، اور اسی دوران ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم کے خلاف ایک چیلنج بن کر ابھرے اور انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف پاکستان مخالف ایجنڈے پر کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا جس پر انہیں بدین کے عوام سے پذیرائی ملی، تاہم پیپلز پارٹی چھوڑنے کے بعد چند سال تک ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔
مزید پڑھیں: پی پی پی رہنما فہمیدہ مرزا کا جی ڈی اے میں شمولیت کا اعلان
والد کی جانب سے سیٹ چھوڑنے کے بعد بیٹے بیرسٹر حسنین مرزا نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، اسی نشست پر ایک مرتبہ پھر ان کے بیٹے نے الیکشن میں حصہ لیا جبکہ قومی اسمبلی کی سیٹ سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کامیاب ہوئیں۔
بیرسٹر حسین مرزا نے 2013 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 57 (نئی پی ایس 72) سے الیکشن میں حصہ لیا اور 50 ہزار ووٹ حاصل کیے جبکہ ذوالفقار مرزا نے 2008 میں الیکشن کے دوران اسی حلقے سے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صرف 33 ہزار ایک سو 11 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ان کے صاحبزادے الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے بھی کامیاب ہوسکتے تھے لیکن ہم نے پی پی پی ٹکٹ لینے کا فیصلہ کیا اور خود بھی پارٹی ٹکٹ پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نہ پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرنے کے حوالے سے کہا کہ بینظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کے اصولوں میں تبدیلی آگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فہمیدہ مرزا کا آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کا فیصل
وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کام کیا جس میں بینظیر بھٹو کا رنگ شامل تھا، لیکن ان کے بعد جو پارٹی ابھری ہے اس میں آصف علی زرداری کا رنگ شامل ہے۔ میں نے بلاول بھٹو زرداری سے امیدیں وابستہ کیں تھیں، لیکن وہ بھی اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتے۔
ذوالفقار مرزا اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات میں خرابی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی تھی جب بدین میں حالات کشیدہ ہوگئے تھے اور مظاہرین نے ان کے گھر کو گھیر لیا تھا۔
تبصرے (2) بند ہیں