گرفتاری کے بعد مریم نواز کا بے نظیر بھٹو سے موازنہ
اگرچہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے اپنی گرفتاری سے قبل ہی یہ واضح کیا تھا کہ ان کا موازنہ پاکستان کی پہلی سابق خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے نہ کیا جائے۔
لندن میں وطن واپسی سے ایک ہفتہ قبل میڈیا سے گفتگو کے دوران مریم نواز کا کہنا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کی قدر کرتی ہیں اور ان کے دل میں محترمہ کی بے حد عزت ہے، تاہم وہ پاکستان میں نئی بے نظیر بھٹو کہلانا پسند نہیں کریں گی۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ مریم نواز سے سوال کیا گیا ہو کہ کیا وہ خود کو پاکستان کی نئی بے نظیر کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔
اس سے قبل بھی مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما اور خود پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما یہ کہ چکے ہیں کہ مریم نواز اور بے نظیر بھٹو کا کوئی موازنہ نہیں۔
لیکن حالیہ ہفتوں میں مریم نواز اور ان کے والد نواز شریف کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں نواز شریف کو 10 سال قید بامشقت اور 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ جب کہ مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت اور 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائے جانے کے بعد ان کا موازنہ بے نظیر بھٹو سے کیا جانے لگا۔
اگرچہ مریم نواز کا بے نظیر بھٹو سے موازنہ اس وقت سے ہی شروع ہوگیا تھا، جب نواز شریف کی صاحبزادی 2013 کے انتخابات میں فتح کے بعد بننے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے درمیان ہی سیاسی طور پر متحرک ہونے لگیں۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف اور مریم نواز اڈیالہ جیل منتقل
تاہم اس موازنے میں اس وقت شدت دیکھنے میں آئی جب مریم نواز اپنے والد نواز شریف کے ساتھ لندن سے وطن واپس آنے لگیں اور یہاں پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے انہیں ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کرکے جیل منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
لندن سے پاکستان روانگی کے دوران طیارے پراپنے والد کے ساتھ مریم نواز کی مسکراتی تصاویر نے اس موازنے کو مزید تقویت دی اور کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر انہیں نئی بے نظیر قرار دیا۔
مریم نواز اور ان کے والد نواز شریف کو 13 جولائی کی شب رات 9 بجے کے قریب لندن سے براستہ ابوظہبی لاہور ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔
مگر مریم نواز کی 44 سال کی عمر میں پہلی گرفتاری نے انہیں کئی لوگوں کی نظر میں نئی بے نظیر بھٹو بنادیا۔
سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے مریم نواز مسکرانے اور حوصلہ مند دکھائی دینے والی تصاویر شیئر کرتے ہوئے انہیں بے نظیر قرار دیا، تاہم کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں کا موازنہ درست نہیں۔
مریم نواز 44 سال کی عمر میں سیاست میں متحرک ہونے کے چند سال بعد ہی جیل گئیں، جب کہ بے نظیر بھٹو انتہائی کم عمری یعنی 25 سال کے بعد اور 30 سال سے قبل ہی جیل میں گئی تھیں۔
جیل جانے سے قبل ہی بے نظیر بھٹو کو 1978 میں سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء کے دوران گھر میں نظر بند کردیا گیا تھا اور ان کی دور حکومت میں ہی ان کے والد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔
بے نظیر بھٹو 1983 میں کم سے کم 6 ماہ تک جیل میں رہیں، بعد ازاں انہیں گھر میں نظر بند کرکے ان کی رہائش گاہ کو جیل کا درجہ دیا گیا تھا۔
بے نظیر بھٹو نے جیل میں گزارے گئے ایام سمیت خود کو سیاسی زندگی میں ملنے والی تکالیف کا تفصیلی ذکر اپنی کتاب ‘مشرق کی بیٹی’ میں بھی کیا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں