آخر کوئی پاکستان کا وزیرِ اعظم کیوں بننا چاہے گا؟
میرے ذہن میں ایک کونا ہے جس میں، مَیں ان ملازمتوں کی فہرست رکھتا ہوں جو مجھے ملیں بھی تو میں شاید قبول نہ کروں۔ آج کل اس فہرست میں سب سے اوپر وزیرِ اعظم پاکستان کا عہدہ ہے۔
آخر کوئی بھی ذی شعور شخص اپنے ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے ہمارے جیسے ہنگامہ خیز اور تقسیم کے شکار ملک کا وزیرِ اعظم کیوں بننا چاہے گا؟ علیحدگی پسند جدوجہد، جہادی دہشتگردی، غربت، تیزی سے بڑھتی آبادی، پانی اور بجلی کی کمی اور ناخواندگی کے مسائل کے علاوہ اب نئے وزیرِ اعظم کو غیر منتخب اور احتساب سے بالاتر طاقتوروں کی جانب سے اپنے آئینی اختیارات میں مداخلت سے بھی نمٹنا ہوگا۔
روایتی طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے حصوں نے ہماری سیکیورٹی پالیسی تشکیل دینے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ زیادہ تر وزرائے اعظم نے اسے ہچکچکاتے ہوئے بھی قبول کیا، بھلے ہی اس کے نتیجے میں ہمارے پہلے سے محدود وسائل پر کتنا ہی بھاری بوجھ کیوں نہیں پڑ رہا ہو۔
مگر جیسا کہ نواز شریف نے سخت سبق سیکھا ہے لیکن دہائیوں سے جاری مداخلت کے بعد سویلین اختیار واپس چھیننا ایسی جنگ ہے جسے وہ نہیں جیت سکتے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں سیاسی اتفاقِ رائے اور ہمارے جھگڑالو سیاستدانوں کے درمیان ذرا سے تعاون کی ضرورت ہے۔ مگر ان کی حالت تو ایسی ہے کہ یہ لوگ اتحاد کرنے کے بجائے جی ایچ کیو کی میز سے پھینکا گیا ٹکڑا قبول کرلیں گے۔ لہٰذا ان پر اثر انداز ہونا آسان ہے۔
پڑھیے: خان صاحب ماضی کے وزرائے اعظم کا حال دیکھ کر سبق حاصل کیجیے
مگر اب دوسری غیر منتخب قوتوں کو بھی انتظامیہ کے کاموں میں مداخلت کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔ عدالتی سرگرمی سے بھرپور ریٹائرڈ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا دور بھی ہمیں یاد ہے جس میں چینی کی قیمت کو کنٹرول کرنے سے لے کر پاکستان اسٹیل ملز کی فروخت کو روکنا بھی شامل ہے، حالانکہ اس کوشش سے چینی کی قیمت کم ہونے کے بجائے تیزی سے بڑھ گئی تھیں جبکہ جس اسٹیل ملز کی فروخت روکی گئی تھی آج ہم اسے اربوں روپے کی سبسڈی دینے پر مجبور ہیں، لیکن اب ہمارے پاس ایسے چیف جسٹس موجود ہیں جو عوامی چندے سے ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔
مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ ان کی نیت اچھی ہے۔ مگر پوچھا جانا چاہیے کہ آیا انہیں بڑے ڈیموں کی تعمیر کی قیمت، کام کی وسعت اور اس کی پیچیدگی کا کوئی اندازہ بھی ہے؟ 1990 کی دہائی میں کالاباغ ڈیم کا شور مچایا گیا تھا مگر اس کی خیبر پختونخوا اور سندھ نے مخالفت کی تھی۔ جنرل مشرف اپنی تمام تر طاقت کے باوجود اس مسئلے پر اتفاقِ رائے پیدا نہیں کرسکے تھے۔
مگر ڈیموں کی تعمیر عدلیہ کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کو اس کے بجائے اپنے فیصلوں کے معیار اور مختلف عدالتوں میں التواء کے شکار کم از کم 18 لاکھ مقدمات پر توجہ دینی چاہیے اور یہ قابلِ افسوس ہے کہ اب انتخابات کے موقع پر نواز شریف اور ان کے خاندان سے متعلق اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
کم از کم مسلم لیگ (ن) کے حامی اس بات پر قائل ہیں کہ ان کے لیڈر کو غیر منصفانہ طور پر قومی اسمبلی سے نکالا گیا، انتخاب لڑنے کا حق چھینا گیا اور حال ہی میں 10 سال کے لیے ان کی آزادی چھین لی گئی۔ یہ سچ ہے کہ زیادہ تر ڈرائنگ روم پنڈتوں اور ٹی وی تجزیہ نگاروں کے مطابق نواز شریف واقعی احتساب کے نرغے میں آچکے ہیں مگر میں تاثرات کو دیکھ رہا ہوں اور کم از کم عوامی رائے کی عدالت میں نواز شریف سے متعلق فیصلوں کو یک طرفہ فیصلوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیے: ریاست سیاست کی مخالفت کب بند کرے گی؟
میڈیا کے زیادہ تر حلقے بھی اسٹیبلشمنٹ کی متعین کردہ راہ پر چل رہے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف پروپیگنڈا زور و شور سے پھیلایا جا رہا ہے جس میں جان بوجھ کر نواز شریف کی جانب سے مبینہ طور پر خزانے سے لوٹی گئی رقم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
مضحکہ خیز موقع تو تب تھا جب نیب کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ ان کا ادارہ نواز شریف کی جانب سے مبینہ طور پر ہندوستان بھیجے گئے اربوں روپوں کی تحقیقات کرے گا۔ معلوم ہوا کہ یہ تو ورلڈ بینک کی جانب سے تارکینِ وطن کے اپنے ممالک کو بھیجی گئی رقم کا صرف ایک تخمینہ تھا۔ اس تحقیق کے مصنفین نے پاکستان آنے والے تمام تارکینِ وطن کی تعداد کو ایک مخصوص رقم سے ضرب دے کر یہ اعداد و شمار حاصل کیے تھے۔ مگر نیب کے سربراہ کو لگا کہ انہیں اس بات پر معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ سب کچھ عین انتخابات سے قبل ہونا انتظامیہ کی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ اس حوالے سے الزامات موجود ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے مفادات اب سیکیورٹی معاملات سے نکل کر سیاسی انجینیئرنگ تک آچکے ہیں جس کے تحت قیادت کا انتخاب عوام کی رائے کے بجائے اندھیروں میں ہوتا ہے۔ ایک غیر معروف شخص کا حیران کن طور پر سینیٹ چیئرمین منتخب ہونا آسان تھا کیوں کہ یہ ایک بالواسطہ مقابلہ ہوتا ہے اور ووٹ دینے کے اہل نمائندے صرف چند سو۔
مگر ہزاروں امیدواروں اور کروڑوں ووٹرز کی موجودگی میں عام انتخابات کے نتائج متعین کرنا ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ انتخابات کے دن دھاندلی کرنا بہت مشکل ہے، سوائے ان حلقوں کے جہاں امیدواروں کے درمیان کم مارجن موجود ہو۔
مگر اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو کشتی بدل کر عمران خان کی جماعت میں جانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ امیدواروں کا کہنا ہے کہ انہیں فون کالیں موصول ہوتی ہیں جس میں انہیں احکامات نہ ماننے کی صورت میں کرپشن کے الزامات اور ٹیکس اداروں کے نام سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
جانیے: ایک دشوار سفر مریم نواز کا منتظر ہے
جب بھی مہمان اسلام آباد آتے ہیں تو رسمی طور پر وزیرِ اعظم سے ملنے کے بعد وہ سیدھا جی ایچ کیو جاتے ہیں تاکہ وقت کے آرمی چیف کے ساتھ بامعنی گفتگو کی جاسکے۔
یوں جنرلوں کو غیر ملکی دوروں پر جاکر پالیسی تقاریر کرتے ہوئے اور آرمی چیف کو وزیرِ اعظم سے زیادہ عزت ملتے ہوئے دیکھنا یقیناً نئے منتخب وزیرِ اعظم کے لیے باعث کوفت ہوگا۔
لہٰذا میں ایک بار پھر دہراتا ہوں: آخر کوئی اس ملک کا وزیرِ اعظم کیوں بننا چاہے گا؟
یہ مضمون ڈان اخبار میں 14 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں