خان صاحب ماضی کے وزرائے اعظم کا حال دیکھ کر سبق حاصل کیجیے
آج جب نواز شریف اور مریم نواز اپنی نامعلوم قسمت کا سامنا کرنے ملک کی سرزمین پر قدم رکھیں گے تب غالباً عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے اپنے ’خواب‘ کو پورا کرنے کے اور بھی قریب پہنچ جائیں گے۔
بدھ کے روز والد اور بیٹی نے بڑے اعتماد کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ دشواریوں سے دوچار پاکستان کے جمہوری عمل کے مفادات میں جیل جانے سے بھی نہیں کترائیں گے۔ میدانِ جنگ تیار ہے جس میں عمران خان فاتح نظر آتے ہیں۔
کچھ ہی عرصے میں وزیر اعظم بننے کے منتظر صاحب بلاشبہ پُراعتماد دکھائی دیتے ہیں، اور پورے ملک میں ’اب صرف عمران خان‘ کے نعروں والے ہزاروں بینرز آویزاں کیے گئے ہیں۔ کچھ عرصے سے ہر ہر اعتبار سے عمران بازی کے اوپر بازی جیت رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف ان کے مدِمقابل ایک کے بعد ایک مسائل کا سامنا کرتے رہے۔
منگل کے روز ہونے والے بم دھماکے کو ہی لیجیے، جس میں ہارون بلور کی زندگی انجام کو پہنچی۔ ان کے والد بشیر بلور بھی تقریباً 6 برس قبل اسی طرح کے حملے میں مارے گئے تھے۔
قتل کا یہ ہولناک واقعہ ایک واضح اشارہ ہے کہ چند سیاسی قوتیں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انتخابی مہم چلائیں گی جبکہ دیگر آزاد دکھائی دیتی ہیں، وہ جو چاہے کریں جو چاہے کہیں۔
پڑھیے: ریاست سیاست کی مخالفت کب بند کرے گی؟
پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی یہ اشارہ مل گیا چنانچہ انہوں نے اشارہ دیا کہ ان کی پارٹی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عوامی جلسوں سے اجتناب کرے گی۔ اس کے اگلے ہی روز عمران خان نے رحیم یار خان میں شریفوں اور بھٹوؤں/زرداریوں پر طنز کستے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی انتخابی اجارہ داری ختم ہوگئی ہے۔
یہ مبالغہ آرائی 1999ء کے زمانے کی یاد تازہ کردیتی ہے، جب جنرل پرویز مشرف نے ایک منتخب حکومت کا خاتمہ کردیا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستانی سیاست سے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کا نام و نشان مٹادیں گے۔ 2007ء کے آتے آتے، مشرف نے اپنے لفظوں کو واپس لیا اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ واشنگٹن کی سرپرستی ہونے والی ڈیل کے لیے بے قرار ہونے لگے۔
حالیہ واقعات تو اور بھی بہت کچھ عیاں کرتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے دنوں میں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ (ن) بازی پر بازی مارتے جا رہے تھے۔ زرداری اور پیپلزپارٹی کنارے لگ رہی تھی جبکہ عمران اور پی ٹی آئی ہمارے نظریاتی محاذوں پر تعینات محافظوں کے نزدیک مناسب آپشن نہیں تھا۔
لہٰذا نواز شریف نے قومی اسمبلی میں زبردست اکثریت حاصل کرکے ایک بار پھر اپنے لیے وزیراعظم ہاؤس کا راستہ صاف کرلیا، انہوں نے پاکستان کو امن اور ترقی کے ایک نئے دور میں داخل کرنے کے بڑے بڑے وعدے کیے۔
5 برس بعد، اب نواز شریف بھلے آدمی نہیں رہے، قوتوں کے ساتھ اختلاف جو پیدا ہوگیا۔ امن اور ترقی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے خواب ہی رہی جبکہ ’قانون کی حکمرانی‘ تو ایک تماشا بن چکی ہے جو ریاست کے احتساب سے آزاد ادارے کے مفادات کے لیے مدد فراہم کرتی ہے۔
پڑھیے: ایک دشوار سفر مریم نواز کا منتظر ہے
اگر اگلے 12 دنوں کے دوران ڈرامائی انداز میں کوئی واقعہ پیش نہیں آتا، جو ممکن نہیں کیونکہ یہ پاکستان ہے اور یہاں کبھی بھی ڈراما ہوسکتا ہے تو چند لوگ شرط لگائیں گے کہ پی ٹی آئی 25 جولائی کو کسی حد تک مینڈیٹ حاصل کرے گی، جمہوری طور پر یا پھر دیگر طریقے سے مگر بہت ہی کم لوگوں کو دو تہائی اکثریت کی توقع ہے، جبکہ درجنوں (جیپ والے) آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دینے کی سب سے زیادہ توقع کی جارہی ہے۔
اگر عمران خان کا یہی دیرینہ خواب ہے تو یہ پورا کس طرح ہوگا؟
یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں تقریباً ہر ایک وزیرِ اعظم، چاہے وہ منتخب ہو یا نہیں، کے حقیقی طاقت کے ساتھ اس کے اختلاف پیدا ہوئے ہیں۔ حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے نام سرِفہرست ہیں۔ حتیٰ کہ محمد خان جونیجو کا نام بھی جنرل ضیاء کی بیڈ بک میں شامل ہوگیا تھا۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ جیسے بار بار ایک ہی راگ الاپا جاتا ہے، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا نظام بار بار الاپے جانے والے ایک راگ کی طرح ہے۔ ہم زیادہ سوچے سمجھے بغیر اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور پھر بار بار ایک ہی نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ ان کے بیانات کے باوجود عمران خان کے طریقے کے حوالے سے کچھ خاص نئی چیز نظر نہیں آتی اسی لیے یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی نیا نتیجہ حاصل ہوگا۔ اگر عمران خان ہی وہ شخص ہیں جنہیں چنا گیا ہے تو اصل سوال یہ ہے کہ عمران خان کب تک ہمارے انتہائی عسکری بلکہ ٹوٹے پھوٹے نظام کی دراڑوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں۔
بلاشبہ معاملات تبدیل ہوتے ہیں، جنہیں نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے، اس ملک میں عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان حقیقی قوتوں کی جانب سے کھیلے جا رہے اس کھیل کو بڑی حد تک جان چکی ہے، جو اقتدار پر (ہمیشہ سے ڈھیلی) پکڑ کو قائم رکھنے کے لیے کھیلا کرتی ہیں۔
نواز شریف کے مخالفانہ رویے نے کم از کم پنجاب کی سرزمین کے کچھ حصے کو تو متحرک کیا ہے، اس کے ساتھ پنجاب سے متصل دیگر علاقوں میں دہائیوں سے چلنے والی جدوجہد کو بھی شامل کرلیں تو پھر گہری ریاست کے حلقوں میں نظر آنے والی جو بے چینی ہے وہ باعثِ حیرت نہیں۔
مگر اس سب کے باوجود ایک مسئلہ ہے: ہمارا ٹوٹا پھوٹا نظام اب کنارے پر آ کھڑا ہے اور ابھرتی ہوئی ان سیاسی قوتوں کے لیے خاصی جگہ بن گئی ہے جو اندھیری قوتوں کے ساتھ ڈیل کرنے سے انکار کردیتے ہیں بلکہ ملک میں ایک عرصے سے مشکلات سے دوچار لوگوں پر جمہوری اور مساویانہ جبلتوں کو اجاگر کرتے ہیں تاکہ وہ تبدیلی آئے جس کے لیے ایک مدت سے ہم سب ترسے ہوئے ہیں۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ اطلاعات کے مطابق ہارون بلور پر جس خودکش بمبار نے حملہ کیا تھا وہ ایک ’نوجوان لڑکا‘ تھا۔ انتہا پسند گروہ کس طرح ’نوجوان لڑکوں‘ کو اپنی صفوں میں شامل کر رہے ہیں؟ وہ کہاں سے آتے ہیں اور ریاست کے سیکیورٹی ادارے اس کا پتہ کیوں نہیں لگا پاتے؟ کیا منتظر وزیرِ اعظم یہ سوالات پوچھیں گے؟ اور پھر ان کے خواب کے ساتھ کیا ہوگا؟
یہ مضمون 13 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔