لوگ وائٹ کالر کرائم کرکے پیسہ لوٹ کر لے گئے، چیف جسٹس
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بیرون ملک پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ لوگ وائٹ کالر کرائم کرکے پیسہ لوٹ کر چلے گئے، سوئزرلینڈ میں بے انتہا پیسہ پڑا ہوا ہے، پیسہ 1992 ایکٹ کے تحت باہر گیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بیرون ملک پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل، وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) کے ڈی جی بشیر میمن پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے رپورٹ دینی ہے مزید وقت دیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو وقت دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے بیرون ملک بینک اکاؤنٹس کا کیا پروٹوکول ہے؟
مزید پڑھیں: بیرون ملک اثاثوں کی واپسی: عدالت نے کمیٹی کی سفارشات مسترد کردیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن لوگوں نے بیرون ملک اکاؤنٹ ظاہر کیے ان کو الگ کردیتے ہیں، سوئٹزرلینڈ میں بے انتہا پیسہ پڑا ہوا ہے۔
اس دوران ڈی جی ایف آئی نے بتایا کہ 4 ہزار 221 جائیدادوں کی نشاندہی کرکے رپورٹ جمع کروادی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو آگے چلنا چاہیے، لوگ وائٹ کالر کرائم کرکے پیسہ لوٹ کر چلے گئے، 1992 ایکٹ کے تحت پیسہ باہر گیا، ان کو بھی سامنے لانا چاہیے۔
دوران سماعت بشیر میمن نے بتایا کہ 4 سے 5 طرح کے لوگ پیسہ ملک سے باہر لے کر گئے، جو غیر قانونی طریقے سے پیسہ گیا وہ واپس لانا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ احمر بلال صوفی کے ساتھ مل کر باہمی قانونی مدد کےفارمولے پر کام کررہے ہیں۔
اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہنڈی کے ذریعے رقم دبئی بھیجی جاتی ہے، دبئی سے یہ رقم قانونی طریقے سے امریکا اور برطانیہ منتقل کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک سال میں 15 ارب ڈالر سے زائد رقم بیرون ملک منتقل کیے جانے کا انکشاف
ڈی جی ایف آئی نے بتایا کہ وزیر خزانہ نے اجلاس میں بتایا تھا کہ 10 ہزار ڈالر سے کم رقم ملک سے باہر لے جانے میں کوئی قدغن نہیں لیکن ہم نے 200 ڈالر لے جانے والے کو بھی ڈکلیئر کرنے کی تجویز دی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا ممکن نہیں اور دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔
بعد ازاں عدالت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔