پانی کا بحران صرف ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے
پاکستان کے پانی بحران پر خطرے کی گھنٹیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں، اور یہ بلاوجہ نہیں ہے۔ ہمیں جس پانی بحران کا سامنا ہے اسے نظر انداز کرنا ناممکن ہے، چاہے وہ پھر شہروں میں پینے کے پانی کی قلت کی صورت میں ہو یا زراعت میں کم پیداوار، کئی علاقوں میں آبی وسائل کے زہر آلود ہونے کی یا کسی خطرناک شکل میں ہو۔
گزشتہ 3 ماہ کے دوران میں ہمیں قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومت کی اس مسئلے پر کسی قسم کی منصوبہ بندی نہ ہونے اور لاپرواہی اور نہروں اور ڈیموں کی کمی کے حوالے سے گرم جوش بحث و مباحثہ دیکھنے کو ملا۔ فیصلہ سازوں کو بالآخر ہوش آگیا۔ ہمیں یہ رد عمل مشترکہ مفادات کونسل کے آخری اجلاس میں نظر آیا جس میں 3 صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے شرکت کی، یہ دیکھنا کسی حیرت سے کم نہ تھا کہ، قومی اہمیت کے ایک مسئلے پر نہ صرف قلیل وقت میں بلکہ صوبے اور وفاق باہمی اتفاق سے ایک نکتے پر راضی ہوئے۔
جہاں یہ ایک اچھی بات ہے کہ بالآخر تمام افراد اقدامات کرنے پر راضی ہوئے وہیں مجوزہ حل کے طور پر ایک بار پھر بہتر بنیادی ڈھانچے، ڈیموں، ندیوں، نہروں، آبی پلانٹس وغیرہ کی بات کی گئی۔ بالخصوص کالا باغ ڈیم کے حوالے سے راتوں رات پرجوش بحث و مباحثے شروع ہوگئے۔
بہت تھوڑی سی بات رویوں میں تبدیلی، پانی کے استعمال میں کمی، مقامی سطحوں پر حل تلاش کرنے اور دوبارہ تقسیم کاری جیسے مشکل موضوع پر بھی ہوئی۔ لیکن یہ دیکھ کر افسوس اور حیرت ہوتی ہے پانی اور ماحولیاتی ماہرین میں سے کسی نے بھی اس پانی بحران کے مسئلے کو آبادی کے اعداد کے تناظر میں نہیں دیکھا، کیونکہ اگر ہم کو یہ جاننا ہے کہ ہمارے پاس فی کس کے حساب سے کتنا پانی دستیاب ہے اس کے لیے آبادی کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
پانی کے بحران کی شدت کا اندازہ لگانے کا ایک سب سے سیدھا اور شاید بہت ہی آسان طریقہ یہ ہے کہ پانی کی دستیاب مقدار کو آبادی پر تقسیم کر کے جائزہ لیں۔ فی کس آمدن کی طرح ہم پانی میں اضافے کی تو توقع نہیں کرسکتے، البتہ ذخیرے کے نظاموں کے طریقوں میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ بلکہ حالیہ بارشوں کے اوقات میں تبدیلی، اور دریائے سندھ کے بالائی حصوں پر ہندوستان میں ڈیموں کی تعمیر سے دستیاب پانی میں مزید قلت واقع ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں کل آبادی میں دگنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ دیگر ملکوں میں شرح پیدائش کو اس حد تک رکھا جاتا کہ جس سے کل آبادی کے اعداد کا توازن برقرار رہے۔
1981 تک بھی ہمارے پاس پانی وافر مقدار میں، یعنی فی کس 2123 مکعب میٹر موجود تھا۔ 1998 کی مردم شماری تک ہماری آبادی 13 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ چکی تھی جبکہ شرحِ اضافہ 2.6 فیصد تھی۔ پانی کی دستیابی اب تناؤ کا شکار ہوتے ہوئے 1351 مکعب میٹر تک پہنچ گئی تھی۔
پڑھیے: پاکستان کو بڑھتی آبادی سے کن مسائل کا سامنا ہے؟
کچھ عرصے بعد ہم نے یہ مان لیا کہ آبادی میں اضافے کی شرح کم ہونی شروع ہو گئی ہے مگر 2000 کے بعد دور میں بچوں کی پیدائش اور آبادی میں اضافے کی شرح میں کم ہی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ 2013 پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے میں دکھایا گیا کہ پاکستان میں شرحِ پیدائش 3.8 پر ہی رکی ہوئی تھی جبکہ دوسرے ممالک میں اس میں ریکارڈ کمی ہو رہی تھی اور وہ 2.2 کی شرح تک پہنچ رہے تھے۔ اور 2017 میں نئی مردم شماری نے اشارہ دیا کہ وہ تباہ کن پیشگوئی سچ ثابت ہوئی ہے: ہم پانی کی کمی کا شکار ہیں اور ہمارے پاس فی بندہ صرف 861 مکعب میٹر پانی دستیاب ہے۔ اگر بہترین پالیسی کے تحت ہماری شرحِ پیدائش 1.6 فیصد ہوتی تو ہم 1000 مکعب میٹر پر ہوتے۔
مگر کبھی کبھار ہلکی پھلکی گفتگو کے علاوہ جب بھی پانی کے بحران پر بات آتی ہے تو ہماری تیز رفتار شرحِ پیدائش کا مسئلہ بھلا دیا جاتا ہے جو کہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اس چیز کو مانے رکھنا اور اس سے جو مسائل ہمارے عوام کے لیے پیدا ہوتے ہیں، یہ نئے نہیں ہیں۔
جب 2017 کی مردم شماری کے ابتدائی اعداد و شمار سامنے آئے تھے تو پریشان کن خبر یہ تھی کہ ہماری تعداد 20 کروڑ 70 لاکھ تھی، یعنی اس سے کئی ملین زیادہ جس کا اندازہ 2010 میں شرحِ پیدائش میں کمی کے محتاط اندازوں کے ذریعے لگایا گیا تھا۔ آبادی میں اس پریشان کن اضافے کو سیاستدانوں، میڈیا اور منصوبہ سازوں نے اتنی آسانی سے ہضم کر لیا جیسے کہ اس کا ملک کے حال اور مستقبل کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سیاستدانوں اور میڈیا کی توجہ فوراً ہی نشستوں کی تعداد، محصولات کے شیئرز، اور صوبوں کو حاصل فوائد کی جانب مڑ گئی۔ اس بات پر بمشکل ہی کوئی تشویش تھی کہ تعلیم، صحت، گھر، اور پانی کی فراہمی کے ساتھ 20 کروڑ 70 لاکھ کے اس شماریے کا کیا تعلق ہے۔
سکڑتے ہوئے آبی وسائل اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پاکستان میں فی کس پانی کی فراہمی کم ہوتی جائے گی جس سے ہر چیز پر اثر پڑے گا، یہاں تک کہ عوام کی صحت پر بھی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر شخص کو روزانہ کم از کم 7.5 لیٹر پانی چاہیے ہوتا ہے تاکہ صفائی اور صحت برقرار رکھی جا سکے۔ دوسری جانب ہر سال لاکھوں بے چاہے بچوں کی پیدائش روک کر شرحِ پیدائش میں کمی لائی جائے، تو پاکستان میں فی کس پانی کی فراہمی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
پڑھیے: ضربِ تولید کی ضرورت ہے
ایسا نہیں ہے کہ اس تعلق پر پہلے روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ ماضی میں بہبودِ آبادی کی پالیسیوں میں کئی منظرناموں کی نشاندہی کی گئی تھی جن کا ہمیں آنے والی دہائیوں میں سامنا ہو سکتا تھا۔ 2002 کی پاپولیشن پالیسی میں اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ ہمیں شرحِ آبادی میں تیزی سے کمی لانی ہوگی تاکہ دوسرے ممالک کے برابر آیا جا سکے۔ پانی سے متعلق 1980 کی دہائی میں بھی جب ہمارے پاس تیزی سے بڑھتی آبادی کے باوجود وافر مقدار میں پانی دستیاب تھا، اس وقت ایوب قطب نے قومی حکمتِ عملی برائے بچت کو دستاویزی صورت دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ پانی ہمیشہ وافر مقدار میں نہیں رہے گا۔ 2013 میں پاپولیشن کونسل اور اقوامِ متحد کے پاپولیشن فنڈ نے پاکستان بھر کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا شخصیات کو نشاندہی کی تھی کہ پاکستانی جوڑے کم بچے چاہتے ہیں اور ہمیں اس اہم موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شرحِ پیدائش میں کمی لانی چاہیے تاکہ ابھرتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔ جہاں سیاسی جماعتوں نے تشویش کا اظہار کیا اور اپنے منشور میں پیدائش میں وقفے کی سہولیات تک بہتر رسائی شامل کرنے کا وعدہ بھی کیا، مگر پھر بھی یہ چیز وہ توجہ برقرار نہیں رکھ پائی جس کی یہ مستحق ہے۔
اب جبکہ سیاستدان اگلے چند ہفتوں میں انتخابات میں جانے والے ہیں تو کچھ بنیادی حقائق پر روشنی ڈالنی ضروری ہے۔ سادہ ترین بات یہ ہے کہ ہم پانی کے بحران کو آبادی میں برق رفتار اور غیر پائیدار اضافے سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے، بالکل اسی طرح جس طرح ہم اسکول نہ جانے والی ایک بڑی تعداد کو آبادی میں برق رفتار اضافے سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے، یا پھر غذائی قلت کو بلند شرحِ زرخیزی سے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے سب سے بڑے قومی چیلنج کا سامنا کیے بغیر پانی کے بحران پر، تمام بچوں کے لیے بنیادی تعلیم کی فراہمی نہ ہونے پر اور تمام تر مشکلات پر روتے رہیں۔
ہمیں ایکشن لینے سے کوئی چیز مانع نہیں ہونی چاہیے ایسے وقت میں جب مذہبی رہنما اور شدید قدامت پسند عناصر بھی مان رہے ہیں کہ پیدائش میں وقفہ ماں اور بچے کی صحت کے لیے ایک مثبت اقدام ہے۔
حل نہایت سادہ ہے، اس کی قیمت بھی عین قابلِ برداشت ہے، اور پہلے سے کہیں زیادہ لوگ تبدیلی کے لیے بے تاب بھی ہیں اور تیار بھی۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (6) بند ہیں