کیپٹن (ر) محمد صفدر نے نیب کو گرفتاری دے دی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور اسلام آباد کی احتساب عدالت سے ایون فیلڈ ریفرنس میں ایک سال قید کی سزا پانے والے کیپٹن (ر) محمد صفدر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو راولپنڈی میں پارٹی کے مرکزی رہنماؤں اور بڑی تعداد میں کارکنوں کی موجودگی میں گرفتاری دے دی۔
کیپٹن (ر) صفدر راولپنڈی کے لیاقت باغ پہنچے تھے جہاں سے ریلی کی شکل میں پارٹی کے دفتر سکستھ روڑ پہنچے جہاں ان کے ساتھ پارٹی کے رہنما بھی موجود تھے جبکہ کارکنان نے گاڑی کے آگے لیٹ کر انہیں گرفتاری دینے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔
نیب کی ٹیم کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کرنے کے لیے سکستھ روڑ پہنچی اور گرفتاری کے بعد انہیں نیب دفتر اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔
اس سے قبل ایک آڈیو پیغام میں کیپٹن (ر) محمد صفدر کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ جلد گرفتاری پیش کریں گے۔
احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا کہ وہ گرفتاری دینے کے لیے ریلی میں شرکت کے لیے آئے ہیں اور آج فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی صدر شہباز شریف کے سامنے گرفتاری دینا چاہتا ہوں۔
کیپٹن صفدر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے لیگی کارکنان بھی لیاقت باغ پہنچے تھے جبکہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کے ہمراہ چوہدری تنویر، ملک ابرار، شکیل اعوان اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما موجود تھے۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے پارٹی کارکنان کو لیاقت باغ میں ریلی میں پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔
اس حوالے سے لندن میں مقیم کیپٹن (ر) محمد صفدر کی اہلیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں 7 سال کی سزا پانے والی مریم نواز نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’میں اور نواز شریف، پاکستان میں جمہوریت کی بقاء کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف پاکستان کے واحد لیڈر ہیں جو سزا بھگتنے کے لیے ملک جارہے ہیں‘۔
کیپٹن (ر) صفدر کا آڈیو پیغام
راولپنڈی میں ریلی میں پہنچنے سے قبل کیپٹن (ر) محمد صفدر نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ گرفتاری دینا غیرت کا تقاضہ ہے لیکن لیگی قیادت کے حکم پر مانسہرہ کے بجائے کسی اور مقام سے گرفتاری دوں گا۔
انہوں نے مانسہرہ کے لوگوں سے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو کامیاب کرانے کی اپیل بھی کی تھی۔
اس سے قبل قومی احتساب بیورو (نیب) کی 3، 3 ارکان پر مشتمل 2 ٹیمیں وارنٹ گرفتاری کے ساتھ مانسہرہ پہنچی تھیں۔
اپنے آڈیو پیغام میں کپیٹن (ر) محمد صفدر نے واضح کیا تھا کہ عوام ’ضلع مانسہرہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محمد یوسف کے حق میں متحد ہو کر انہیں انتخابات میں بھرپور کامیابی دلائیں اور کامیابی کی ایسی مثال قائم کریں جیسی 2013 کے انتخابات میں دیکھی گئی تھی‘۔
مزید پڑھیں: نواز شریف 25 جولائی سے پہلے پاکستان آئیں گے،مسلم لیگ (ن)
کیپٹن (ر) صفدر کا کہنا تھا کہ ’میں پارٹی کا کارکن ہوں، پہلے میرے دل نے کہا کہ تنول کے مرکز سے گرفتاری دوں لیکن پارٹی قیادت پر اپنا فیصلہ بدلا‘۔
اس سے قبل خبر آئی تھی کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر روپوش ہو گئے تاہم وہ لاہور ہائی کورٹ سے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ضلع مانسہرہ کے صدر ظفر محمود اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے قریبی دوست نے بتایا تھا کہ ’کیپٹن (ر) محمد صفدر کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں، ان کا موبائل بھی مسلسل بند ہے، وہ نیب کے سامنے پیش ہوجائیں گے یا پھر لاہور ہائی کورٹ سے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کریں گے‘۔
نواز شریف بغیر ٹریننگ کے کمانڈو ہیں، مریم نواز
اس سے قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 7 سال کی سزا پانے والی مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے اپنے والد اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کو کمانڈو قرار دیا تھا۔
لندن میں مقیم مریم نواز نے کہا تھا کہ ‘نواز شریف کسی سے نہیں ڈرتے اور والدہ کی علالت کے باوجود قومی ذمہ داری پوری کرنے وطن واپس جائیں گے‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ ذاتی ذمہ داری سے قومی ذمہ داری زیادہ بڑی ہیں اور نواز شریف بغیر ٹریننگ کے کمانڈو ہیں جو کسی سے نہیں ڈرتے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت
مریم نواز نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جمعے کو وطن پہنچیں گے، گرفتار کرنے والوں کے سامنے گرفتاری پیش کریں گے، بھاگنے والوں میں سے نہیں ہیں’۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ قانونی ٹیم نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں تیار کرلیں ہیں۔
ساتھ ہی نیب نے نواز شریف اور مریم نواز کو ایئرپورٹ سے گرفتار کرنے کے لیے وارنٹ گرفتاری بھی حاصل کرلیے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل مریم نواز نے ٹوئٹر پیغام میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک حامی کے ٹوئٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ڈاکٹر نے کہا ہے کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ والدہ کب دوبارہ ہوش میں آئیں گی لیکن ہم نے جمعے کو واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے'۔
ایون فیلڈ ریفرنس کا پس منظر
گزشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔
مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔
بعد ازاں نیب کی جانب سے نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف 8ستمبر2017 کوعبوری ریفرنس دائرکیا گیا تھا۔
ایون فیلڈ یفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرملزم نامزد تھے، تاہم عدالت نےعدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔
9 اکتوبر 2017 کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔
مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر 19 اکتوبر 2017 کو براہ راست فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ نوازشریف کی عدم موجودگی کی بنا پران کے نمائندے ظافرخان کے ذریعے فردجرم عائد کی گئی تاہم نواز شریف 26 ستمبر 2017 کو پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوگئے تھے۔
26 اکتوبر2017 کو نوازشریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے،3 نومبر 2017 کو پہلی بار نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے اور 8 نومبر2017 کو پیشی کے موقع پر نوازشریف پربراہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ان ریفرنس کا فیصلہ 6 ماہ میں کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ مدت رواں برس مارچ میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی گئی تھی۔
نیب ریفرنسز کی توسیع شدہ مدت مئی میں اختتام پذیر ہوئی تاہم احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ٹرائل کی مدت میں مزید توسیع کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالتِ عظمیٰ نے قبول کرلیا اور ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کی۔
سپریم کورٹ کی توسیع شدہ مدت جون میں اختتام ہونے والی تھی، تاہم احتساب عدالت نے ٹرائل کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے 4 جون کو ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
10 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنایا جائے۔
11 جون 2018 کو کیس میں نیا موڑ آیا جب حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے جس پر نوازشریف کی طرف سے ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کروایا تاہم 19جون کوخواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اوردست برداری کی درخواست واپس لے لی۔
یہ بھی یاد رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔
تبصرے (1) بند ہیں