• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

’جو بڑے سمجھتے ہیں وہ پکڑے نہیں جائیں گے ہم انہیں بھی ڈھونڈ نکالیں گے‘

شائع July 4, 2018

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) سے فائدہ اٹھانے کے خلاف دائر درخواست میں نامزد تمام فریقین کو اپنے اور بچوں کی بیرون ملک موجود جائیداد اور اکاؤنٹ ظاہر کرنے کی ہدایت کردی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے لائرز فاؤنڈیشن فار جسٹس کے صدر فیروز شاہ گیلانی کی جانب سے این آر او کے خلاف دائر پٹیشن کی سماعت کی۔

دوران سماعت سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات طلب کر لیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کو بھی اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ’پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کے ساتھ کوئی این آر او نہیں کیا

اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ کسی کی کوئی آف شور کمپنی ہے تو وہ بھی ظاہر کرے اور تمام فریقین اپنے بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کروائیں، اس حوالے سے دیئے گئے ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے ذہن میں ایک ہزار لوگ ہیں جن سے تمام تفصیلات لی جائیں گی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملک قیوم اور آصف زرداری کی جانب سے جواب کب آئے گا؟ جس پر آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ زرداری صاحب کی جانب سے جواب آگیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے پراپرٹی اور فارن اکاؤنٹ ظاہر کرنے ہیں، آپ لوگوں کے بیرون ملک کوئی اثاثے نہیں اس سے متعلق سپریم کورٹ کو اعتماد میں لیں، سپریم کورٹ کو اعتماد میں لینے میں کیا مسئلہ ہے؟

مزید پڑھیں: این آر او کیس: لارجر بنچ کی تشکیل

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ لوگوں نے ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے اپنا پیسہ ’وائٹ‘ کیا ہے، آپ عدالت کو آگاہ کریں کہ پاکستان سے باہر آپ کی اور بچوں کی کوئی پراپرٹی ہے یا نہیں؟

دوران سماعت فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جہاز میں میرے ساتھ وعدہ کیا تھا، اب اس حوالے سے کچھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔

جس پر آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم سیاستدانوں کے لیے نہیں ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک آصف زرداری کا تعلق ہے تو میرے موکل آٹھ مختلف مقدمات میں باعزت بری ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: این آر او کو قانون بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں، آصف زرداری

کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ این آر او کیس میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے جواب جمع کروا دیے ہیں۔

بعد ازاں نے عدالت نے این آر او مقدمے میں جواب جمع کروانے کے لیے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو 2 ہفتوں کی مہلت دیدی۔

اس کے ساتھ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو بڑے یہ سمجھتے ہیں وہ پکڑے نہیں جائیں گے تو ہم انہیں ڈھونڈ کر پکڑیں گے‘۔

اس کے ساتھ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ ہم نے بڑے کام کرنے ہیں، ڈیم بنانے ہیں، کرپشن کو ختم کرنا ہے اور ملک کا قرضہ بھی اتارنا ہے۔

مزید پڑھیں: این آر او کیس: عدالتی حکم کیخلاف نظرثانی کی اپیل

خیال رہے کہ لائرز فاؤنڈیشن فار جسٹس کے صدر فیروز شاہ گیلانی نامی شہری نے سپریم کورٹ میں ملک کے سابق صدور آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف این آر او کے ذریعے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہچانے کے حوالے سے پٹیشن دائر کی تھی۔

فیروز شاہ گیلانی نے پٹیشن میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ غیر قانونی طریقے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا جس کے حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پہلے سے ہی فیصلے موجود ہیں۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا اور این آر او کا اعلان کیا، جس کے تحت آصف علی زرداری اور دیگر سیاست دانوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیں: 'این آر او کے تحت پندرہ سال تک مارشل لاء نافذ نہیں ہو سکتا'

یاد رہے کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے جینیوا کے اٹارنی جنرل کو آصف علی زرداری کے خلاف کرمنل اور سول مقدمات کو کالعدم قرار دینے کے لیے خط لکھا تھا لیکن سپریم کورٹ نے 2009 میں اس حوالے سے فیصلہ سنایا کہ سابق اٹارنی جنرل قیوم نے مراسلہ ذاتی حیثیت میں لکھ کر ارسال کیا تھا جو رولز آف بزنس 1973 کے منافی ہے۔

7 جولائی 2012 کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد آصف علی زرداری سمیت این آر او سے مستفید ہونے والے 8 ہزار 500 افراد کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات دوبارہ کھول دیئے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024