2 ڈیمز کی تعمیر پر اتفاق رائے ہو گیا، جلد خوشخبری دوں گا، چیف جسٹس
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرضہ معافی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ فوری طور پر 2 ڈیمز کی تعمیر پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، گزشتہ چند دنوں میں اہم ملاقاتیں کی ہیں، قرضہ معافی کیس میں وصول ہونے والی رقم سے ڈیم بنائیں گے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 54 ارب روپے کے قرضہ معافی کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران ڈیموں کی تعمیر سے متعلق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2 ڈیموں کی تعمیر پر تمام اسٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے ہوگیا ہے، بہت جلد آپ کو ڈیمز کے حوالے سے خوشخبری دوں گا۔
چف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ جلد ہی اپنے دوستوں سے رابطے کروں گا کہ اس کار خیر میں حصہ ڈالیں، ان دوستوں میں آپ کا نام بھی شامل ہوگا، اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں: قرضہ معافی کیس:’اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے تو معاملہ نیب کو بھیج دیں گے‘
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قرضہ معافی کیس میں 2 آپشن دیے تھے، چند کمپنیوں نے معاف کرائی گئی 75 فیصد رقم کی واپس آمادگی کا اظہار کیا ہے، جو رقم واپس نہیں کرنا چاہتے ان کے مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بینکنگ کورٹس جانے والے کیسز میں متعلقہ افراد کی جائیدادیں کیس سے منسلک کریں گے، بینکنگ کورٹ کے فیصلے تک معاف کرائی گئی رقم عدالت میں جمع کروانا ہوگی۔
عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ بینک کے مقدمات میں دستاویزی ثبوت شواہد ہوتے ہیں، بینک کے مقدمات میں زبانی شہادتیں تو نہیں ہوتیں، دستاویزات کا جائزہ لے کر ہی فیصلہ کرنا ہے، ہم بینکنگ کورٹ کو 3 دن میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کا کہہ دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بینکنگ کورٹ کے جج دن رات بیٹھ کر 3 دن میں مقدمہ نمٹا دیں گے، اس پر وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ میرے موکلوں نے سیاسی اثر و رسوخ سے قرض نہیں لیا تھا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب آپ میرے محترم ہیں، درخواست کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے قرضے لیے اور صاحب حیثیت ہیں وہ پیسے واپس کردیں۔
عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کون سے آپشن پر عمل کرنا ہے، فریقین کل تک مشاورت کرکے بتائیں۔
اس دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ہم نے قرضوں کی معافی کے لیے 2 فارمولے تشکیل دیے ہیں، پہلا فارمولا اے مائنس بی، ضرب 75 فیصد کے فارمولے کے تحت قرضے واپس کرائے جا سکتے ہیں، دوسرا فارمولا لیا گیا قرضہ مائنس واپس کیے گئے پیسے نکال کر بقایا کی 75 فیصد رقم کا ہے۔
جسٹس منیب اختر کے ریمارکس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب پتا چلا کہ میں جسٹس منیب کو سپریم کورٹ کیوں لے کر آیا، بہت سارے لوگوں نے انکی تقرری پر تنقید کی، بار کونسلز نے ان کے تقرر کے خلاف قراردادیں پاس کیں، اب سمجھ آ جانی چاہیے کہ جسٹس منیب اختر کتنے اعلیٰ پائے کے جج ہیں، مجھے فخر ہے کہ جسٹس منیب اختر میری سفارش پر سپریم کورٹ آئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کو فارمولا اے پسند نہیں تو فارمولا بی کے تحت رقم جمع کروا سکتا ہے اور اگر بینکنگ کورٹ سے فیصلہ حق میں آگیا تو رقم واپس لے لیں لیکن فیصلہ حق میں نہ آیا تو مکمل رقم جمع کرانا ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: قرضہ معافی کیس: 222 افراد کو 75 فیصد قرض کی رقم جمع کرانے کا حکم
اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جنہوں نے پیسے ادا کر دیے ہیں ان کو تو سہولت ملنی چاہیے، یہ ہی بہتر انصاف ہو گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انصاف کا ترازو فاروق نائیک آپ کے حوالے کرتا ہوں، آپ اس معاملے پر انصاف کریں، کل تک سوچ لیں کیا کرنا ہے، اس کیس میں قید کی بھی سزا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق ایک سال کی سزا ہے، جو پیسے نہیں دینا چاہتے جیل بھی جاسکتے ہیں
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 4 جولائی تک ملتوی کر دی۔
تبصرے (1) بند ہیں