• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

الیکشن 2018ء: کیا سیاسی جماعتوں کے بیس کیمپ میں تبدیلی ہونیوالی ہے؟

شائع June 28, 2018

مجھے کہنے دیجیے کہ 2013ء میں منعقد ہونے والے پاکستان کے 10ویں عام انتخابات اس لحاظ سے بھی منفرد تھے کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کے بعد چاروں صوبوں میں 4 مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے صوبے میں اکثریتی جماعتیں بن کر سامنے آئیں۔ پولنگ ڈے پر ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے جو انتخابی نتائج سامنے آئے ان کے مطابق خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی جبکہ بلوچستان میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔

پاکستان میں براہِ راست انتخاب والے حلقوں کی کل تعداد 849 ہے۔ قومی اسمبلی کے 272 حلقوں کی تعداد کو منہا کردیا جائے تو ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے، چاروں صوبوں میں، براہِ راست انتخابی حلقوں کی تعداد 577 ہے، جن میں پنجاب کے 297، سندھ کے 130، خیبر پختونخوا کے 99 اور بلوچستان کے 51 حلقے شامل ہیں۔

کن صوبوں میں کس پارٹی کو کیا نتائج حاصل ہوئے؟ آئیے تفصیل سے جانتے ہیں۔

پنجاب

2013ء کے انتخابات میں صوبہ پنجاب کے 297 میں سے 294 صوبائی حلقوں پر پولنگ ہوئی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز نے 212 نشستیں حاصل کرکے اپنی تمام سیاسی حریف جماعتوں کو کہیں دور، بہت دور پیچھے چھوڑ دیا۔

پنجاب اسمبلی میں 42 آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے 20، پاکستان مسلم لیگ (ق) نے 8، پاکستان پیپلز پارٹی نے 6 اور پاکستان مسلم لیگ ضیاء نے 2 نشستیں حاصل کیں جبکہ جمیعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان نیشنل مسلم لیگ صرف ایک ایک نشست ہی حاصل کرسکیں۔

سندھ

پاکستان میں عام انتخابات کے 10ویں سیاسی معرکے میں سندھ کی صوبائی اسمبلی کے 128 حلقوں میں پولنگ ہوئی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے سندھ اسمبلی کی 70 نشستوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ متحدہ قومی موومنٹ نے 37 نشستیں جیت کر صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

سندھ اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے 7 نشستیں جیتیں جبکہ 5 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔ صوبائی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف 3، 3 نشستوں پر کامیاب رہیں۔ نیشنل پیپلز پارٹی نے 2 نشستیں حاصل کیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) صرف ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

خیبرپختونخوا

مئی 2013ء کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا میں 99 صوبائی حلقوں پر پولنگ ہوئی۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے 35 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ تحریک انصاف کے بعد سب سے زیادہ 14 نشستیں آزاد امیدواروں نے اپنے نام کیں، جبکہ جمیعت علمائے اسلام (ف) نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی 13 اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے 12 نشستیں حاصل کیں۔

جماعتِ اسلامی اور قومی وطن پارٹی کو 7، 7 نشستوں پر کامیابی ملی۔ عوامی نیشنل پارٹی نے 4 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی جمہوری اتحاد پاکستان 3، 3 نشستوں پر فتحیاب ہوئیں جبکہ آل پاکستان مسلم لیگ نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی ایک نشست حاصل کی۔

بلوچستان

2013ء کے عام انتخابات میں صوبہ بلوچستان کے 50 صوبائی حلقوں پر پولنگ ہوئی۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بلوچستان اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل کرکے صوبے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ صوبائی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے 9 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ 8 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ بلوچستان اسمبلی میں نیشنل پارٹی نے 7، جمیعت علمائے اسلام (ف) نے 6 جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے 5 نشستیں حاصل کیں۔

بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے 2 جبکہ جاموٹ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔

یوں صوبائی اسمبلیوں کے لیے 2013ء کے عام انتخابات کے بعد، سیاسی ماہرین نے صوبہ پنجاب کو مسلم لیگ نواز، سندھ کو پاکستان پیپلز پارٹی، خیبر پختونخوا کو پاکستان تحریکِ انصاف جبکہ سندھ کے درالحکومت کراچی کو متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان کو پختوںنخوا ملی عوامی پارٹی کا انتخابی بیس کیمپ گرداننا شروع کیا۔ البتہ یہ بات اور ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کی روشنی میں کسی سیاسی جماعت کا انتخابی بیس کیمپ مضبوط تھا تو کسی کا کمزور۔

کس جماعت کا بیس کیمپ کتنا مضبوط؟

اگر ہم اعداد و شمار کے سائسنی تجزیے کی بنیاد پر جائزہ لیں تو پاکستان مسلم لیگ نواز نے پنجاب اسمبلی کی 297 نشستوں میں سے 212 حاصل کیں جو 71 فیصد بنتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی کی 130 نشستوں میں سے 70 حاصل کیں جو 54 فیصد بنتی ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی 99 نشستوں میں سے 35 حاصل کیں جو کل نشستوں کا 34 فیصد بنتی ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے 51 میں سے 10 نشستیں حاصل کیں جو 20 فیصد بنتی ہیں۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے مدِ مقابل سیاسی حریفوں کو صرف 29 فیصد، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مدِ مقابل سیاسی حریفوں کو 46 فیصد نشستیں ملیں جبکہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کے مدِ مقابل سیاسی حریفوں کو 66 فیصد ووٹ پڑے۔

یوں پاکستان کی 3 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پییپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کو صوبائی اسمبلیوں میں ملنے والی نشستوں کی تعداد یہ واضح کردیتی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے انتخابی بیس کیمپ پنجاب میں تینوں سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ مضبوط جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف اپنے انتخابی بیس کیمپ خیبر پختونخوا میں تینوں سیاسی جماعتوں کی نسبت سب سے کمزور تھی۔

سیاست کے طالب علموں کے لیے اس امر کا جائزہ لینا بھی دلچسپی سے ہرگز خالی نہیں ہوگا کہ جہاں پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنے انتخابی بیس کیمپ پنجاب میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آسانی سے صوبائی حکومت بنالی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنے انتخابی بیس کیمپ سندھ میں سادہ اکثریت کے ساتھ صوبائی حکومت تشکیل دی وہیں پاکستان تحریکِ انصاف کو اپنے انتخابی بیس کیمپ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے جماعتِ اسلامی، قومی وطن پارٹی اور قومی جمہوری وطن پارٹی کے آگے اتحاد کے لیے پاپڑ بیلنے پڑے۔

لیکن سوال تو یہ ہے کہ 2018ء میں کیا ہونے جارہا ہے؟ اس حوالے سے تحریک انصاف کے بیس کیمپ خیبر پختونخوا کے انتخابی ماہرین، صوبے میں ہر دفعہ نئی سیاسی جماعت کو موقع دینے کی روایت کو 2018ء کے عام انتخابات میں بدلتا دیکھنے کی پیش گوئیاں کررہے ہیں، لیکن دوسری طرف تحریکِ انصاف کی حریف تینوں بڑی سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنے اپنے انتخابی بیس کیمپ یعنی پنجاب میں مسلم لیگ نواز، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ، ٹوٹ پھوٹ اور عوامی حمایت میں کمی جیسے بڑے سیاسی مسائل کا شکار ہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے نکلتے سیاسی شیئر کو تحریک انصافِ کے ہاتھوں میں جاتا دیکھ بھی رہی ہیں۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ 2018ء کے رواں انتخابی برس جب پنجاب میں مسلم لیگ نواز، سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی میں متحدہ قومی مومنٹ کے کئی بڑے اپنی سیاسی جماعت کا ساتھ چھوڑ گئے۔ ایسے میں تحریکِ انصاف کی جانب سے آئندہ عام انتخابات سے صرف 75 دن قبل اپنے انتخابی بیس کیمپ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں موجود اپنے درجن سے زائد ارکان کو پارٹی سے فارغ کردینے کے باوجود صوبہ میں ہونے والے انتخابی سروے، پختوںخوا میں تحریکِ انصاف کی مقبولیت میں ماضی کی نسبت اضافے کی خبریں کیوں سنا رہے ہیں؟

یہ بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چائیے کیونکہ بہرحال 2013ء کے انتخابات کے بعد ابھر کر سامنے آنے والی پاکستان کی چاروں بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے بیس کیمپ خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور کراچی میں تبدیلی غیر محسوس طریقے سے اپنا راستہ بنا رہی ہے۔ یہاں تبدیلی سے مراد تحریک انصاف نہیں بلکہ وہ سیاسی رجحانات ہیں جو ماضی کے انتخابی نتائج کی صورت عوام کا فیصلہ سناتے رہے ہیں۔

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ مسلسل 15 سے 20 برسوں تک ڈرائیونگ سیٹ پر رہی مگر اب کی بار سیاسی سڑک پر اندرونی اختلافات کے اسپیڈ بریکر نے صورتحال بہت خراب کردی ہے۔ ایسے میں کراچی میں تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی ’اب کی بار راستہ صاف ہے‘ کے نعرے لگ رہے ہیں۔

سندھ اور پنجاب کی سیاسی بس پر مسلسل 10 برسوں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز اپنے سب سیاسی حریفوں کو مسلسل بے بس کئے ہوئے تھیں مگر اب کی بار ان دونوں جماعتوں کو بھی اپنے اپنے ہوم گراونڈ میں اپنے ہی ہوم کراوڈ کی مدد سے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور تحریک انصاف کے ’بس اب بس‘ کے نعرے کا سامنا ہے۔

خیبر پختونخوا میں تبدیلی کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ وہاں کی عوام ہر پانچ برس بعد ’پارٹی بدلنے‘ کی روایت کو ہی بدل دیں اور 5 برس مشکل سے اتحادی حکومت چلانے والی تحریک انصاف کو اگلے 5 برس کے لئے مضبوط مینڈیٹ مل جائے مگر اس روایت کی تبدیلی کے راستے میں جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کی قیادت میں متحدہ مجلس عمل کا چیلنج پوری قوت سے کھڑا ہے جو مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے بہتر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا ہتھیار استعمال کرکے شاید پختونخوا میں تحریک انصاف کو آسانی سے اقتدار کے مزے نہ لینے دے۔

فیاض راجہ

محمد فیاض راجہ گزشتہ 15  برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت، بزنس پلس ٹی وی، جیو ٹی وی اور سماء ٹی وی سے بطور رپورٹر وابستہ رہے ہیں. آج کل ڈان نیوز میں بطور نمائندہ خصوصی کام کر رہے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mfayyazraja@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

raja kamran Jun 28, 2018 01:11pm
بہت ہی بہترین تجزیہ کیا ہے۔ فیاض صاحب نے اوریہ تجزیہ بھی اعدادوشمار اور سائنسی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔ فیاض بھائی یہ سلسلہ جاری رکھیں

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024