ناجائز قبضہ کرکے خیرات کے کام نہیں ہوتے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے زمین خریدنے والوں سے رقم وصول کرنے کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے رقم وصول کرنے سے روک دیا، ساتھ ہی حکم دیا کہ خریدار اپنی رقم سپریم کورٹ کے حکم پر کھولے گئے اکاؤنٹ میں جمع کرائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کو 2 ہفتوں میں 5 ارب روپے اور ذاتی جائیداد کے کاغذات بطور ضمانت جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ناجائز قبضہ کرکے خیرات کے کام نہں ہوتے، بحریہ ٹاون کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کرے گا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سرہراہی میں عدالتی فیصلے کے خلاف بحریہ ٹاؤن کی نظرثانی کی درخواست پر کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران ملک ریاض کے وکیل اعتراز احسن عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن پیسے وصول کرنے کے لیے لوگوں کو نوٹس دے رہا ہے، یہ عمل عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ بحریہ نے رقم وصولی کیلئے نوٹس نہیں بھیجے، ہم نے کسی کو رقم جمع کرانے کیلئے نہیں کہا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر انہیں ( ملک ریاض ) کو بھی بلائیں، انہوں نے اس ملک سے کھایا ہے تو اسے لوٹائیں بھی۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ ملک ریاض نے صحرا میں شہر کھڑا کر دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے موکل کی بات نہیں کررہا لیکن اگر کوئی رابن ہڈ کی طرح چوری کرکے لوگوں میں بانٹ دے اور صحرا میں شہر بنا دے تو کیا اس کے عمل کو درست قرار دے دیں، ہمیں اس شخص سے کوئی ہمدردی نہیں جو غیرقانونی کام کر کے لوگوں کو نقصان پہنچائے، یہ نظرثانی درخواست ہے، اس معاملے پر فیصلہ دیا جا چکا ہے اب دیکھیں گے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اور اعتزاز احسن کے درمیان مکالمہ بھی ہوا، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ انشاء اللہ آپ اپنے موکل کے خلاف دلائل دیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کراچی میں بلند عمارات کی تعمیر پر پابندی عائد کررکھی ہے، بحریہ ٹاؤن کو کراچی میں 20 منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی اجازت کس نے دی؟ اس ملک کی ایک ایک پائی واپس کرنا پڑے گی۔
اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ پابندی اب لگی ہے، تعمیرات پہلے ہوئی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تعمیرات اب بھی جاری ہیں، نیب کے پاس کیس پہلے سے ہے، آپ اپنے موکل کو کہیں کہ نیب کے سامنے پیش ہوں۔
دوران سماعت اعتزاز احسن نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے پیسے حکومت کی طرف نکلتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ملک ریاض کے وکیل سے کہا کہ حاجی صاحب (ملک ریاض) کو کہیں کہ عدالت کے سامنے آ کر کھڑے ہوجائیں، کیا ملک ریاض کو عدالت میں آکر کھڑا ہونا معیوب لگتا ہے؟
دوران سماعت چیف جسٹس نے ملک ریاض کا نام لیے بغیر ریمارکس دیے کہ ’وہ اربوں ڈالر کے مالک بن گئے، سیاست میں وہ لوگوں کو اکھاڑتا، پچھاڑتا بھی ہے‘۔
بحریہ ٹاؤن کوئی نیا منصوبہ شروع نہ کرے، تمام کام بند کرا دوں گا، چیف جسٹس
بعد ازاں عدالتی فیصلے کے کچھ دیر بعد بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض عدالت میں پیش ہوگئے۔
عدالت میں پیشی کے دوران ملک ریاض نے کہا کہ جس دن سپریم کورٹ نے بلایا میں حاضر ہوا ہوں، کراچی میں بحریہ ٹاؤن منصوبہ اس لیے بنایا تاکہ پاکستان تیسری دنیا سے پہلی دنیا میں آجائے۔
ملک ریاض نے کہا کہ سپریم کورٹ جو حکم دے عمل کریں گے لیکن عدالت عظمیٰ ایسا فیصلہ نہ دے جس سے ملازمین متاثر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں لوڈشیڈنگ ہے، مگر بحریہ ٹاؤن میں 24 گھنٹے بجلی آتی ہے، جہاں کلاشنکوف تھی اور کوئی انسان نہیں جاتا تھا ہم نے وہاں تعمیراتی منصوبے بنائے، دنیا کی تیسری بڑی مسجد یہاں بنائی۔
ملک ریاض نے کہا کہ تخت پڑی کا جو مقدمہ چل رہا ہے، نیب اسے کلیئر قرار دے چکا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت کے نیب کلیئرنس پر نہ جائیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ غیر قانونی اور ناجائز طور پر قبضہ کرکے خیرات کے کام نہیں ہوتے۔
اس پر ملک ریاض نے کہا کہ میں کینسر کا مریض ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملک ریاض صاحب آپ طاقتور ہیں، آپ کے خلاف کوئی سر اٹھا نہیں سکتا۔
ملک ریاض نے کہا کہ اللہ کی قسم طاقتور صرف اللہ کی ذات ہے، میں نے اولڈ ایج ہوم بنایا، ہمارے ہسپتالوں میں یورپ اور امریکا جیسی سہولیات ہیں، ہم نے تعلیم کے لیے درسگاہیں، چڑیا گھر اور تفریحی مقامات بنائے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دینی کاموں کی وجہ سے غیر قانونی کاموں کی اجازت نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک ریاض آپ 20 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروائیں، جس پر ملک ریاض نے کہا کہ میں 2 ارب جمع کروا سکتا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 2 ارب تو میں نے چھوٹے تاجروں سے نکلوائے ہیں۔
دوران سماعت ملک ریاض نے کہا کہ نیب کی وجہ سے لوگوں کی پراپرٹی کے ریٹ تباہ و برباد ہورہے ہیں، سپریم کورٹ مقدمے کا حتمی فیصلہ ہونے تک نیب کو کارروائی سے روکے۔
ملک ریاض نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ بحریہ ٹاؤن کا دورہ کریں، اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ میں نے بحریہ ٹاؤن جا کر خود پر الزام لگانا ہے۔
ملک ریاض نے کہا کہ میں نے کوئٹہ اور مری میں بھی منصوبے بنانے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملک ریاض اب آپ اپنی آخرت سنواریں، آپ کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے کتنے پیسے چاہئیں؟
اس پر ملک ریاض نے کہا کہ کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں، مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں، جس پر چیف نے ریمارکس دیے کہ پیسے قوم کے حوالے کر دیں، لوگوں کو امانتیں لوٹا دیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خیرات کا کام رشوت دے کر نہیں ہوسکتا، اس پر ملک ریاض نے کہا کہ اللہ کی قسم کسی کو رشوت نہیں دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب بحریہ ٹاؤن نے کوئی نیا منصوبہ نہیں کرنا، تمام کام بند کرادوں گا، جس دن ملک ریاض کو کچھ ہوگیا تو سب کچھ ڈوب جائے گا۔
اس پر ملک ریاض نے کہا کہ مجھ پر اتنا بوجھ ڈالا جائے کہ اٹھا سکوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 10 ارب روپے جمع کرادیں، جس پر ملک ریاض نے کہا کہ خدا کے لیے 5 ارب روپے کردیں، تین مرتبہ خدا کا واسطہ دے چکا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی جائیدادیں قرق (ضبط) کرتے ہیں، اس پر ملک ریاض نے کہا کہ میری کوئی جائیداد نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا جہاں آپ رہتے ہیں وہ گھر قرق کرتے ہیں۔
جس پر ملک ریاض نے کہا کہ وہ گھر میری بیوی کے نام ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ 100 کینال کا گھر بنا رہے ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل حیدرآباد سے آرہا تھا، میری اہلیہ نے ڈرائیور سے پوچھا کہ بحریہ ٹاؤن کہاں ہے؟ اس پر ڈرائیور نے بتایا ساتھ ہی ہے، اس پر اہلیہ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن چلیں، جس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ خدا کا واسطہ ہے۔
اس موقع پر عدالت نے ملک ریاض سے 2 ہفتوں میں 5 ارب روپے اور ذاتی جائیداد کے کاغذات بطور ضمانت طلب کرلیے، ساتھ ہی کل (27 جون ) تک تجاویز اور اپنے اہل خانہ کے نام موجود جائیداد فروخت نہ کرنے سے متعلق بیان حلفی عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
دوران سماعت ملک ریاض نے مزید کہا کہ عدالت نیب کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی سے روک دے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تجاویز لے آئیں کل دیکھ لیں گے لیکن بحریہ ٹاون کوئی نیا پروجیکٹ شروع نہیں کرے گا۔
بعد ازاں عدالت نے بحریہ ٹاؤن نظرثانی کیس کی سماعت 20 جولائی تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
خیال رہے کہ 4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور تین ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔
عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے ساتھ زمین کا تبادلہ قانون کے مطابق کیا جاسکتا ہے لیکن زمین کے تبادلے کی شرائط اور قیمت عدالت کا عمل درآمد بینچ طے کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی میں بغیر این او سی تعمیرات کا انکشاف
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جب تک سندھ حکومت زمین کا فیصلہ نہیں کرتی، الاٹی اسپیشل اکاؤنٹ میں رقم جمع کرنے کے پابند ہوں گے، اس سلسلے میں عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار کراچی کو اسپیشل اکاؤنٹ کھولنے کی ہدایت کی تھی۔
یہ بھی یاد رہے کہ 30 مئی کو نیب نے سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر بحریہ ٹاؤن کے خلاف اپنی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ زمین کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث اداروں اور افراد کے خلاف ان کا کیس بہت مضبوط ہے۔
تحقیقات کے حوالے سے نیب نے انکشاف کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر ہزاروں ایکڑ زمینیں ہڑپ کیں جس کے سبب قومی خزانے کو 90 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں