صنوبر کی فریاد
بلوچستان کی وادی زیارت میں 70 سالہ حاجی عبد القیوم، صنوبر کے گھنے سائے تلے مٹی کی کچی دیواروں پر بنی ایک دوکان سجائے بیٹھے ہیں۔
قیوم کا کہنا ہے “یہ صنوبر میری زندگی ہے، میں نے اپنی پوری زندگی، اس کی چھاؤں میں گزاری ہے"۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ سایہ کب تک رہے گا۔
زیارت میں صنوبر کے یہ جنگلات، دنیا میں اپنی نوعیت کے دوسرے بڑے جنگلات ہیں۔
لیکن اب یہ اپنی شناخت کھونے کے خطرے سے دوچار ہیں- علاقے میں رہنے والے لوگ بلا روک ٹوک درخت کاٹ رہے ہیں اور حکام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ صنوبر کا وہ جنگل کب تک رہے گا۔
قدرتی خوبصورتی اور سبزے سے شاداب یہ وادی، سیب، چیری اور انگور سمیت اعلیٰ معیار کے باغات کے لئے بھی مشہور ہے۔
پہاڑی چوٹیوں، چشموں اور کاریزوں کے درمیان گھری ہوئی یہ وادی موسم سرما میں بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں سے شمار ہوتی ہے- علاقے کے مقامی لوگ، خود کو گرم رکھنے کیلئے، صنوبر کی لکڑی کاٹ کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں- بلوچستان کے دیگر بہت سے علاقوں کی طرح، یہ وادی بھی قدرتی گیس کی فراہمی سے اب تک محروم ہے-
مقامی افراد کو دیکھتے ہوئے غیر مقامی افراد کو بھی موقع مل گیا ہے کہ وہ اس قدیم جنگل کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالیں-
معروف ماحولیاتی کارکن فیض محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ ٹمبر مافیا بھی جنگلات کی کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ میں ملوث ہے۔
ان کا کہنا تھا “زیارت میں صنوبر کے جنگل اپنی بقا کے لئے پکار رہے ہیں"۔
زیارت میں صنوبر کے یہ جنگلات تقریباً سات لاکھ ایکڑ علاقے پر محیط ہیں، جن میں سے دو لاکھ تیس ہزار ایکڑ رقبہ حکومت کی ملکیت ہے۔
ان جنگلات سے حاصل ہونے والا تیل کئی قسم کے استعمال میں آتا ہے۔ یہاں سے نہ صرف علاج معالجے کے لئے مختلف قسم کی جڑی بوٹیاں حاصل ہوتی ہیں بلکہ لیونڈر کی مسحور کن مہک، جولائی سے اکتوبر تک، اس وادی کا احاطہ کئے رکھتی ہے-
یہ درخت ایک سال میں تقریباً آدھا انچ ہی بڑھتے ہیں اور حیران کن طور پر اس جنگل میں کچھ درخت سات ہزار سال پرانے ہیں۔ کاکڑ کے مطابق یہ جنگل ایک عالمی اثاثہ ہیں۔
لیکن بوڑھے عبد القیوم کی طرح بہت سے لوگوں کے لئے صنوبر کا درخت ایک اثاثہ ہی نہیں بلکہ زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ پشتو میں صنوبر کے درخت کو “اوبشتا” کہتے ہیں جس کا مطلب “پانی چوسنے والا” ہے۔
قیوم کے مطابق “اوبشتا” کی کٹائی، صرف ماحول کا ہی نقصان نہیں بلکہ مذہبی طور پر بھی گناہ ہے-
ساری زندگی جنگلات کی بقاء کے لئے کوشاں رہنے والے اس شخص کا کہنا تھا “ہمارے تو مذہب میں بھی درخت کاٹنا منع ہے-”
درختوں کی عمر کے باعث عبدالقیوم بزرگوں کی طرح ان کا احترام کرتے ہیں- ان کا کہنا تھا کہ “مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی بھی درخت میرا ہم عمر ہو-”
آج جنگل کے یہ رضاکار نگراں، جنگل کے متعلق فکرمند ہیں۔ تاہم اس پریشانی میں وہ اکیلے نہیں ہیں-
زیارت کے قریب “خرواری بابا” نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں لوگ، موسم سرما میں درجہ حرارت گرنے پر ہرنائی ہجرت کر جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے “ہم درخت کاٹنے پر ہجرت کو ترجیح دیتے ہیں"۔
حال ہی میں، یونیسکو کی ایک بین الاقوامی رابطہ کونسل (ایم بی اے) نے صنوبر کے ان جنگلات کو ایک بائیو سفئر (Biosphere) ریزرو قرار دیا ہے- بائیو سفئر (Biosphere) ریزرو، قدرت کے اس طرح کے اثاثوں کو مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر محفوظ رکھنے کے اقدامات کو کہتے ہیں-
تاہم اس اعلان پر محکمہ جنگلات کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود، لکڑی مافیا اور لکڑی کی تلاش میں کچھ مقامی لوگ بھی کھلے عام ان قدیم درختوں کو کاٹنے میں مصروف ہیں-
یہ جنگلات زیارت کی سیاحت کے حوالے سے شہرت کا سبب بھی ہیں لیکن ان کا مستقبل، تحفظ کے لئے پرخلوص کوششوں کے بغیر خطرے میں نظر آتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں ان قدیم جنگلات کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں اور صنوبر کی فریاد سنیں۔
تبصرے (2) بند ہیں