ترکی: معاشی صورتحال انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوسکتی ہے
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے اچانک انتخابات کے اعلان کے بعد رواں ماہ عام انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے تاہم شہریوں میں معاشی مستقبل کے حوالےسے مایوسی پائی جاتی ہے۔
شہری اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ 24 جون کو ہونے والے انتخابات کے بعد نتائج کچھ بھی ہوں لیکن معاشی صورتحال مزید بگڑنے امکان ہے۔
قطری خبر رساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک ترک دکاندار کا کہنا تھا کہ لوگ محض دوسرے لوگوں کے مقابلے میں بہتر صورتحال کے لئے کوشش کر رہے ہیں،معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شرح نمو میں ہونے والی کمی اور کرنسی کی قدر میں کمی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی میں 24 جون 2018 کو قبل از وقت انتخابات کا اعلان
واضح رہے کہ رواں برس ترک کرنسی ’لیرا‘ کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے 20 فیصد کمی آئی ہے، جس کے باعث مرکزی بینک کو دنیا کے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کرنسیوں میں سے ایک کو سنبھالنے کے لئے شرح سود میں کئی گنا اضافہ کرنا پڑا، جبکہ مہنگائی اور خسارے میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اس صورتحال میں ترک ووٹر تذبذب کا شکار ہے کہ موجودہ معاشی غیر یقینی کیفیت سے کون سا امیدوار بہتر طور پر نبردآزما ہوسکتا ہے۔
اس سلسے میں جو لوگ معاشی غیر یقینی کی صورتحال کا ذمہ دار ترک صدر طیب اردوان اور ان کی جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی کو ٹھہراتے ہیں ان کا موقف ہے کہ 15 برس بعد اب ان پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے تبدیلی بے حد ضروری ہے، جبکہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ صرف رجب طیب اردوان اور ان کی جماعت ہی ملک میں استحکام لا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: ترکی: ملک میں نافذ ایمرجنسی میں مزید توسیع کا امکان
اس حوالے سے ایک تاجر نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت میں آنے والی تبدیلی سے ملک میں اعتماد سازی کی فضا میں کمی آئے گی اور معاملات مزید بگڑیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معاشی بحران کا شکار عوام اس الیکشن کو محض سیاسی نقطہ نظر سے نہیں دیکھ رہے بلکہ وہ اس کے ذریعے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مستقبل کے لیے بہترانتخاب کرنا چاہتے ہیں، ہم ملک میں استحکام چاہتے ہیں۔
دوسری جانب ایک طبقہ فکر کی جانب سے ملک میں تبدیلی کی ضرورت کا نعرہ بلند کیا جارہا ہے۔
اس حوالے سے ایک ماہر تعمیرات کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ملک میں جاری ایمرجنسی کے خاتمے کا وعدہ ہی معیشت کی حالت بہتر بنانے کے لیے کافی ہے، کیوں کہ اس سے ہم نارمل حالات میں رہ سکیں گے تو معیشت خودبخود پروان چڑھے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی کا پاکستان سے غیر مشروط تعاون جاری رہےگا،اردوگان
دوسری جانب ترک صدر طیب اردوان نے دوبارہ اقتدار ملنے کی صورت میں معاشی پالیسیوں پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کا عندیہ دیا، انہوں نے ترکی کرنسی لیرا کی قدر میں کمی اور مہنگائی کا ذمہ دار غیر ملکی قوتوں کو قرار دیا۔
بین الاقوامی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے سال 2018-19 میں ترکی کی شرح نمو 4.3 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے، جبکہ گزشتہ برس ترقی کی یہ شرح 7.4 فیصد کی ریکارڈ سطح پر تھی جو تنظیم برائے معاشی تعاون اور ترقی کے 37 اراکین ممالک میں آئرلینڈ کے بعد دوسرے نمبر پر تھی۔
اس حوالے سے حکومت پر تنفید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ترکی میں ترقی کی شرح میں اضافہ ٹیکس کٹوتیوں، حکومت کی جانب سے بے تحاشہ ادھار لیے جانے کے سبب دیکھنے میں آیا ہے، جس کے باعث مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔