اسرائیل: فوج کے جنگی جرائم کی ویڈیو بنانے کو جرم قرار دینے کی تیاری
اسرائیلی کابینہ کے وزیر نے ایک ایسے بل کی تشکیل کی منظوری دے دی جس کے مطابق فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فورسز کے جنگی جرائم کی ویڈیوز اور تصاویر بنانا جرم قرار دے دیا جائے گا۔
پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق متنازع بل کو قانونی شکل دینے کیلئے پارلیمنٹ میں ووٹنگ اتوار کو ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ بل کو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو حکومت کی اتحادی پارٹی ’اسرائیل بیتنا‘ کی حمایت حاصل ہے، جس کے تحت اسرائیلی فورسز کے اہلکاروں کے مورال کو کم کرنے کے لیے بنائی جانے والی ویڈیو یا ان کی تصاویر لینے والے شخص کو 5 سال قید کی سزا دی جاسکے گی۔
مزید پڑھیں: فلسطین : اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے دوروز میں ہلاکتوں کی تعداد 4 ہوگئی
اس کے علاوہ اگر کوئی اسرائیلی قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کیا گیا تو اسے 10 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق مذکورہ بل پر اسرائیلی پارلیمنٹ رواں ہفتے ووٹنگ کرے گی اور اگر یہ منظور ہوگیا تو اس کی اسکروٹنی اور ترمیم کے بعد اسے قانون بنانے سے قبل مجوزہ بل پر پارلیمنٹ میں مزید 3 دفعہ ووٹنگ کی جائے گی۔
گزشتہ کچھ ماہ سے ایسی متعدد ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے متعدد کارروائیوں کے دوران نہتے فلسطینوں کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا انہیں قتل کردیا گیا، جن میں خواتین، بچے اور نوجوان شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین کا آئی سی سی سے اسرائیل کے خلاف فوری تحقیقات کا مطالبہ
اسی طرح رواں سال اپریل میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے اسنائپر بردار فوجی اہلکار سرحد پر لگی باڑ کے قریب احتجاج کرنے والے نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ موجود دیگر اہلکار ’کامیاب نشانوں‘ پر انہیں مبارکباد دے رہے ہیں۔
اس سے قبل اگست 2017 میں ایک اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہودی آباد کار فلسطینوں کو ہراساں کررہے ہیں اور اسلام کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کررہے ہیں۔
مزید پڑھیں: فلسطین: اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 15 جاں بحق، 1400 سے زائد زخمی
ادھر فلسطین کے نائب وزیر اطلاعات فیض نے اسرائیلی حکومت کے مذکورہ اقدام کی مذمت کی اور بتایا کہ ’اس اقدام کا مقصد فلسطینوں کے خلاف اسرائیلی فورسز کے جنگی جرائم کو چھپانا ہے اور ان کو ہر قسم کے اقدام کے لیے آزاد کرنا ہے‘۔
یاد ہے کہ مذکورہ بل کے تحت پابندی کی زد میں ٹی وی اور اخبارات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نیٹ ورکس بھی آئیں گے۔